(ش۔م)
ہر محلے میں ایسی ’’خالائیں‘‘ اور ’’باخبر انکل ‘‘موجود ہوتے ہیں، جن کے پاس ہر دوسرے گھر کے مسئلے مسائل کے بارے میں ساری معلومات ہوتی ہیں، اُن میں ایک اور خصلت بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ انفارمیشن صرف اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ مزے لے لے کر دوسروں کے ساتھ بھی ڈسکس کرتے ہیں۔
لوگ ایسے دوسروں کی زندگی کے ’’اپ ڈیٹس‘‘ شوق سے لیتے ہیں، جیسے اپنا کوئی نقصان پورا کر رہے ہوں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی تجسس بھری باتیں چسکے لے لے کر سنتے بھی ہیں ۔ سب ’’مزید سے مزید جاننے‘‘ کی جستجو میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
کرتے ہیں یہ غیبت تو کسی اور کی ہوگی
جب اپنی باری آئی تو خدا خیر کرے
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کچھ حد تک یہ تجسس ہر انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو ایک بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔* اس نے کیا کیا؟* وہ کیا کر رہا ہے؟* اس کے بعد اس کا کیا ہوا؟* اس کو نوکری سے کیوں نکالا؟* اس کی تنخواہ کتنی ہے؟* اس کی گھر والوں سے توں توں میں میں کیوں ہوئی؟* اس کے گھر سے آوازیں کیوں آ رہی تھیں؟
وغیرہ وغیرہ۔چاہے میں اور آپ اس چیز سے انکار ہی کیوں نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے، کہ ان سب چیزوں کی نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سب کو ’’چُل ‘‘رہتی ہے۔اشفاق احمد نے کہا تھا کہ:’’ہم دوسروں کی غلطیوں کو دوربین سے دیکھتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو عینک کے بغیر بھی نہیں دیکھ پاتے۔‘‘
سوشل میڈیا کے اس دور میں دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کی یہ عادت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ کیا مرد اور کیا عورت ۔ ہر شخص دوسرے شخص کے بارے میں کچھ نہ کچھ بات کرنے میں اُس کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے۔
٭… پوڈکاسٹس دیکھ لیں
٭… فیس بک کی پوسٹس دیکھ لیں
٭… ٹوئٹر پر ٹویٹس دیکھ لیں
٭… انسٹا کی ریلز چیک کر لیں
٭… ٹک ٹاک کی ویڈیوز دیکھ لیں
ہر پلیٹ فارم پر لاکھوں لوگ دوسروں کی زندگیوں کو دیکھنے، سمجھنے اور اُس پر رائے دینے میں مصروف نظر آئیں گے۔ ہر کوئی افواہیں، سکینڈلز اور دوسروں کی غلطیوں کو ہائی لائٹ کرنے میں لگا رہتا ہے۔
لوگ ایسی ویڈیوز شوق سےدیکھتے ہیں ،جس میں دوسروں کی زندگی کے بارے میں ڈسکس ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے پاس ولاگرز (Vloggers) کی شکل میں موجود ہے۔
کم وپیش سب کو ایسے ولاگز دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے، جس میں لوگ اپنے گھروں کی صبح سے شام تک کی ویڈیوز بناتے رہتے ہیں لیکن یہ ہمیں عارضی طور پر ہماری اپنی زندگی کے مسائل سے ہٹ کر، دوسروں کے مسائل میں اُلجھا دیتا ہے۔یہ ایک نفسیاتی کھیل تماشا ہے، جس کو Curiosity Trap کہتے ہیں جہاں ہم دوسروں کی غلطیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کو تلاش کرتے ہیں، تاکہ اپنی ذات کی خامیوں کو نظر انداز کر سکیں۔
مولانا رومیؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ ،’’اپنے دل کو اتنا مصروف رکھو کہ دوسروں کی خامیاں دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملے۔‘‘
ہمارا پورا فوکس ہمارے اپنے گھر اور ہماری اپنی کردار سازی پر ہونا چاہیے ، مگر موجودہ دور میں یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ ہر ایک سیکنڈ، ہر ایک لمحہ انسان کو یہ سوچنا چاہیں کہ اس کو اپنے آپ کو کس طرح سے بہتر سے بہتر انسان بننا ہے، اس کے لیے اپنی خامیوں پر غور کریں، اپنی نیت، عمل، سوچ اور رویوں کا تجزیہ کریں، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں چند عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مثلاً:* زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں،* اپنی خوبیوں، کمزوریوں، جذبات، رویوں اور ردعمل پر کام کریں،* اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نظم وضبط رکھیں، *سوچ مثبت رکھیں،* اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھیں،* غصہ، لالچ، حسد، تکبر جیسے منفی جذبات کو کنٹرول میں رکھیں،* اپنی غلطیوں سے سبق حاصل سیکھیں،* زندگی کے ہر پہلو میں مستقل مزاجی سے کام لیں،* لوگوں کی طرف سے ملنے والی تنقید اور اختلاف پر غور کریں،* اپنے نفس کا تزکیہ کریں۔
یہ وہ عوامل ہیں جو ایک مضبوط اور متوازن شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں ۔
جب ہمارا فوکس اپنی ذات پر نہیں ہوگا، تو ظاہر ہے ہمارا دماغ پھر کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی اور کے بارے میں تو سوچے گا، ایسے میں دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنے لگتے ہیں اور پھر اپنی زندگیوں کی پریشانیوں کو دوسروں سے کمپیئر کر کے یا تو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھ کر فخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا پھر حسد کرتے ہیں۔
لہٰذا کرنے کا کام بسایک ہی ہے کہ ہمیں ایک ’’فوکس ‘‘ ٹھیک رکھنا ہے۔ ہر چیز میں سب سے پہلے اپنے آپ کو بیچ میں لے کر آئیں۔ وہ کیا کر رہا ہے، کیوں کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے؟ آپ کے لیے یہ سب معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ میں کیا کر رہا ہوں، کیوں کر رہا ہوں، اور کیسے کر رہا ہوں۔ اصل سوچنے کا کام یہ ہے، جیسے ہی سوچ کا فوکس بدلے گا، ہمارے نظریات، تعلقات اور نتائج خود بہ خود تبدیل ہوجائیں گے۔