عائشہ احمد
بچّے سب کو پیار ے ہوتے ہیں، ماں باپ کی تو جان ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی والدین کا بے جا لاڈ پیار اور توجہ بچوں کو بگاڑنے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب والدین بچوں کو کسی بات پر ڈانٹتے ہیں تو ان کو کوئی فر ق ہی نہیں پڑتا۔ اسی لیے کہا جا تا ہے ہر کام میں اعتدال ضرور ہونا چاہیے، ورنہ بگاڑ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
اکثر والدین کو یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ ان کے بچے دوسری سرگرمیوں میں تو بہت آگے ہیں، مگر تعلیم کے معاملے میں پیچھے ہیں۔ کچھ بچے کھیل کود میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ پڑھائی کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں رہتی۔ بعض بچے کسی مضمون میں اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ اُس مضمون کو بور تصور کرنے لگتے ہیں۔ والدین کو لگتا ہے کہ بچے ان کے خواب پورے نہیں کرسکیں گے۔
یہ سوچ غلط بھی ہے والدین کو چاہیے بچوں پر خفا ہونے کے بجائے ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو ان کو تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ بچوں پر اپنی خواہشات مسلط نہ کریں۔ اگر وہ سائنس پڑھنے کے بجائے کسی دوسرے مضمون میں دل چسپی لیتا ہے تو اُسے پڑھنے دیں۔
ان سے زبردستی اپنی پسند کا مضمون پڑھنے کے لیے نہیں کہیں ،کیوں کہ اس طرح پڑھائی میں ان کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں پر تھونپے کے بجائے انہیں ان کی مرضی کے مضامین پڑھنے دیں۔ اکثر والدین کی خواہشا ت ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر یا انجنیئر بنے جب کہ بچہ کسی اور پروفیشن کی طرف جانا چاہتا ہے، مگر اسے اپنے والدین کی ضد کی خاطر اپنی خواہش کی قربانی دینی پڑتی ہے، جس سے وہ بچہ پڑھائی میں دوسرے بچوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔
اپنے بچوں پر کبھی بھی سختی نہ کریں، انہیں ان کے شوق اور دلچسپی کے مطابق پڑھنے دیں۔ بچوں کی تعلیم میں ناکامی کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کروانے کے بعد ان کے تعلیمی معاملات سے بالکل بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اساتذہ سے رابطے میں رہیں، تاکہ اپنے بچوں کی کارگردگی کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے رہیں۔
یاد رکھیں جو والدین بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں ۔ان کے بچے پڑھائی میں دل چسپی نہیں لیتے۔ بعض والدین اپنے بچوں کا مقابلہ ان ہی کے عمر کے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا بچہ اچھے نمبر لے آئے تو اپنے بچے کو بات بات پر جتلاتے رہتے ہیں، یہ رویہ سراسر غلط ہے، کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر بچہ ذہنی طور پر ایک جیسے ہو۔
ایسا کرنے سے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اور کچھ بچے تو اس قدر دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں کہ وہ پڑھنا لکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے ناراض ہونے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ کہیں آپ بھی قصور وار تو نہیں۔