’’یہ پردے کس رنگ کے ڈالے ہیں ؟‘‘ اور یہ چادر کا ڈیزائن کتنا پرانا ہے، اب ان صوفوں کو بھی بدل ڈالو، کب تک استعمال کرو گی اور یہ برتن آؤٹ آف فیشن ہیں، ان کی جان چھوڑ بھی دو۔ ایسی گھڑیاں اب کون گھروں میں سجاتا ہے، ہم نے تو کب کا انہیں ضرورت مندوں کو دے دیا۔ اففف!! اعتراض، اعتراض، اعتراض ۔کچھ لوگوں کو ہر بات پر کیڑے نکالنا ہوتے ہیں، ان کا کام یہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی ذمہ داری پر مامور ہیں۔
ان کا توآنا ہی گھر والوں کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔ ان کی باتیں سن کر تواپنے ہی گھر سے بیزار ہونے لگتے ہیں۔ اپنا ہی گھر اور ذات اجنبی لگنے لگتی ہے۔ جب کسی کی آمد خوشی کے بجائے الجھن اور گھبراہٹ کا باعث بن جائے، تو ایسے مہمانوں سے دوری ہی بھلی۔ جب ان معترض مہمانوں کی تشریف آوری آپ کو اپنے ہی گھر کا عمیق جائزہ لینے پر مجبور کرکے آپ کی دوڑیں لگوا دے۔
یہ اُٹھاؤ، وہ بدلو، سیٹنگ چینج کرنی پڑے، ہمہ وقت صفائی کا معیار آنے والے کے معیار کے مطابق مطلوب ہو۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے ایک افرا تفری مچ جائے اور ان کے جانے کے بعد مزید افرا تفری! کیا ایسے مہمانان گرامی کا اپنے گھر آنا پسند کریں گے؟ ان کا نہ آنا ہی بہتر سمجھتے ہوں یا پھر ایسے بے تکلف مہمانوں کا ، جن کا آنا ہمیں منہ دھونے پر بھی مجبور نہ کرے۔
یہ تو مذاق ہوگیا۔ لیکن شاید آج کی دوریوں کی بنیاد ہمارا ایک یہ رویہ بھی ہے، جس نے مہمان نوازی کی روایت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ پہلے جو اصرار کر کر کے عزیز و اقارب کو بلایا جاتا تھا اب اپنی ہی مصروفیات کا رونا رو کر اس سے اعراض برتا جا رہا ہے، جس کی وجوہات میں ایک وجہ مندرجہ بالا رویہ بھی ہے، جو گھر آکر چھوٹی بڑی بات میں کیڑے نکالیں، لہٰذا اس سے پہلے کہ دل مکدر ہو کوئی بہانہ کر کے ایسے مہمانوں کو مدعو ہی نہ کیا جائے۔ وہ بھی خوش اور ہم بھی بے فکر۔
ایک وقت تھا جب مہمان رحمت اور مہمان داری باعث برکت سمجھی جاتی تھی، گرچہ یہ آج بھی ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن ہم نے خود اسلامی ومشرقی اقدار پر نکتہ چیں رویوں سے میخیں ٹھونک دیں، بلکہ یوں کہیں کہ اس روایت پر کلہاڑی چلادی۔ اب تو خال خال ہی لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں، جس سے ایک تکلفانہ فضا قائم رہتی ہے۔
اگر کہیں اعتراض پیش نظر نہیں ہوتا تو ایک اور ہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور وہ ہے مہمان کے تفتیشی سوالات اور کھوج۔ پہلے سے ہی متوقع سوالات کے جوابات ازبر کیے جاتے ہیں۔ اپنے ہی گھر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ کھڑکی، دروازے، فرنیچر کی نادیدہ گرد صاف کی جاتی ہے۔
بچوں بڑوں کو ازسرنو تمیز، تعظیم، ترتیب وتدوین کے اسباق رٹوائے جاتے ہیں، اس کے باوجود بھی کہیں نا کہیں گڑ بڑ ہو ہی جاتی ہے، جس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا، پھر تھک ہار کر یہی کہا جاتا ہے تم اپنے گھر اچھے اور ہم اپنے گھر۔
آخر ایسا کیا کیا جائے کہ میزبان و مہمان پھر شیر و شکر ہوجائیں۔ حل بہت سادہ اور آسان ہے۔ اگر واقعی آپ اس سے ملاقات کے خواہشمند ہیں تو اپنی دلچسپی کا محور اس کی ذات تک ہی محدود رکھیں۔ اس کے گھراور دوسری جانب توجہ کم رکھیں۔
زیادہ سوالات سے گریز خاص طور پر وہ نجی سوال جس سے بتانے والا ہچکچاہٹ کا شکار ہو۔ لہٰذا کھوجی بننے سے اجتناب کریں۔ ہاں اگر وہ خود ہی آپ کو اپنا رازداں بنانا چاہے تو مخلص دوست بن کر اس کو سنا ئیں اور دل کے کسی تہہ خانے میں ان باتوں کو محفوظ کر لیں۔
ہر رشتے کے کچھ حقوق وفرائض ہوتے ہیں اور ہمارے خیال سے مہمان و میزبان کے اس تعلق کے بھی کچھ اصول وقواعد ہوتے ہیں۔ نہ بے جا بناوٹ اور تکلف جو تکلیف دہ ہو جائے اور نہ ایسا بے محابہ، بے دھڑک رویہ جو دھڑکنوں کو بے ترتیب کردے۔ خلوص خود ہی راستے کھول دیتا ہے، ورنہ پھر وہی تم اپنے گھر اور ہم اپنے گھر۔