• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معزز والدین! بچوں کو بڑوں کا احترام کرنا سکھائیں

آمنہ فیض

اکثر یہ ہوتا ہے کہ والدین اور بچے اپنی بات منوانے کے لیے ضد پر اڑ جاتے ہیں لیکن آخر میں بچہ اپنی بات منواہی لیتا ہے۔ زیادہ تر بچے والدین کی وہ بات نظر انداز کردیتے ہیں جب آپ اُسے کوئی ایسا کام کرنے کا کہتے ہیں جو وہ کرنا نہیں چاہتا۔

جب بڑے کسی کام کے لیے بچے کو منع کرتے ہیں تو وہ غصے میں رونا پیٹنا شروع کردیتا ہے۔ اُس وقت والدین کو یہ لگتا ہے کہ اس عمر میں زیادہ تر بچے ایسا ہی کرتے ہیں اور اُمید کر لیتے ہیں کہ بڑے ہوکر صحیح ہو جائے گا۔

جب کہ یہ طر یقہ کار بالکل غلط ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اُسی وقت بچے کی اس غلط عادت کو ختم کرنے کی کو شش کریں، کیوںکہ بچپن میں آسانی سے بڑوں کا احترام کرنا سکھا یا جاسکتا ہے۔ بڑے ہوکر کہنا نہ ماننے کی عادت پختہ ہو جاتی ہے۔

بلاشبہ چھوٹے بچے کو والدین کی ہر قت ضرورت ہوتی ہے اور اُس کے ناز نخرے بھی اُٹھا تے ہیں۔ اس لیے بچے کو لگتا ہے کہ وہ گھر کا مالک ہے۔ لیکن جب بچے چھ، سات سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب والدین ان کا کہنا نہیں ماننےگے بلکہ انہیں والدین کی ماننی پڑے گی۔

بعض بچے تو اس وجہ سے بات بات پر غصہ بھی کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو والدین کی بات سننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ اس وقت والدین کو بہت صبر سے کام لینا چاہیے اور ایک نیا کردار ادا کرنا چاہیے ۔بچوں کو واضح کردیں کہ آپ ان سے کیا توقع رکھتے ہیں۔

لیکن اگر والدین اپنے اختیار کو استعمال نہیں کرتے اور بچے کو ڈھیل دیتے ہیں تو بچہ اُلجھن میں پڑ سکتا ہے، بگڑ سکتا اور یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ وہ ہر بات میں اپنی من مانی کرسکتا ہے۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو عمر کے ہر حصے میں بڑوں کا ادب واحترام کرنا اور کہنا ماننا سکھائیں۔