دنیا میں موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر گئی، 16.8 ملین برطانوی شامل

March 02, 2024

لندن (پی اے) دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔عالمی تجزیے کے مطابقدنیا بھر میں موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 تک تقریباً 159 ملین بچے و نوجوان اور 879 ملین بالغ موٹاپے کا شکار تھے۔ برطانیہ میںتقریباً 16.8 ملین لوگ موٹاپے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں،جس میں 80 لاکھ خواتین، 7.4 ملین مرد، 760000 لڑکے اور 590000 لڑکیاں شامل ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر1990 سے 2022 تک بچوں اور نوعمروں میں موٹاپے کی شرح چار گنا بڑھ گئیجبکہ بالغوں میں یہ شرح دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ دریں اثناء، سٹڈی میں اسی عرصے کے دوران یہ بھی ہوا کہ دنیا بھر میں بچوں اور نوعمروں میں کم وزن کی شرح میں کمی آئی جبکہ بالغوں میں یہ شرح نصف سے زیادہ ہے۔ تحقیقی ماہرین نے کہا کہ موٹاپا بہت سے ممالک میں غذائی قلت کی سب سے عام ہے۔ امپیریل کالج لندن کے سینئر مصنف پروفیسر ماجد عزتی نے کہا کہ یہ امر بہت تشویشناک ہے کہ موٹاپے کی وبا، جو 1990 میں دنیا کے بیشتر حصوں میں صرف بالغوں میں تھی، اب اسکول جانے والے بچوں اور نوعمروں میں بھی نظر آ رہی ہے۔ ایک ہی وقت میں خاص طور پر دنیا کے غریب ترین حصوں میں لاکھوں افراد اب بھی غذائی قلت سے متاثر ہیں۔ غذائی قلت کی دونوں شکلوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم صحت مند، غذائیت سے بھرپور خوراک کی دستیابی اور استطاعت کو نمایاں طور پر بہتر بنائیں۔ برطانوی بالغوں میں موٹاپے کی شرح 1990 میں 13.8 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں خواتین کے لئے 28.3 فیصد اور مردوں میں 2022 میں 10.7 فیصد سے 26.9 فیصد تک بڑھ گئی۔بچوں اور نوعمروں کے لیے یہ شرح 1990 میں 4.7 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں لڑکیوں کے لیے 10.1 فیصد اور لڑکوں کے لیے 4.3 فیصد سے 12.4 فیصد تک پہنچ گئی۔دریں اثنا، عالمی سطح پر، 1990 سے 2022 تک، خواتین میں موٹاپے کی شرح دوگنی سے زیادہ، مردوں میں تقریباً تین گنا، اور لڑکیوں اور لڑکوں میں چار گنا سے بھی زیادہ بڑھی ہے۔موٹاپے کے سب سے زیادہ پھیلاؤ والے ملکوں میں ٹونگا، امریکن ساموا، پولینیشیا اور مائیکرونیشیا، کوک آئی لینڈ اور نیو شامل ہیں۔اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر، 2022 تک، تقریباً 532 ملین افراد کا وزن کم تھا، جن میں 183 ملین خواتین، 164 ملین مرد، 77 ملین لڑکیاں اور 108 ملین لڑکے شامل تھے۔برطانیہ میں تقریباً 981000 افراد کا وزن کم ہے، جن میں 430,000 خواتین، 360,000 مرد، 61,000 لڑکیاں اور 130,000 لڑکے شامل ہیں۔یہ سٹڈی - دنیا بھر میں صحت کے سائنسدانوں کا ایک نیٹ ورک ، این سی ڈی رسک فیکٹر کولیبریشن نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) کے تعاون سے کی تھی۔تحقیقی ماہرین نے یہ سمجھنے کے لیے کہ تین دہائیوں میں دنیا بھر میں موٹاپا اور کم وزن کس طرح تبدیل ہوا ہے،باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی ) کا استعمال کیا، جس کا حساب ان کے وزن اور قد کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ٹیم نے 222 ملین آبادی میں سے 3000 سے زیادہ افرادکا ڈیٹا اکٹھا کیا۔تحقیقی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ بی ایم آئی جسم میں چربی کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے ایک نامکمل پیمانہ ہے، لیکن آبادی پر مبنی سروے میں اسے بڑے پیمانے پر ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہاکہ یہ نئی تحقیق ابتدائی زندگی سے لے کر بالغ ہونے تک، خوراک، جسمانی سرگرمی اور ضرورت کے مطابق مناسب دیکھ بھال کے ذریعے موٹاپے کو روکنے اور اس پر قابو پانے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ موٹاپے پر قابو پانے کے عالمی اہداف کو پورا کرنے کیلئے ٹریک پر واپس آنا حکومتوں و کمیونٹیز کا کام ہو گا، جس کی تائید ڈبلیو ایچ او اور صحت عامہ کی قومی ایجنسیوں کی شواہد پر مبنی پالیسیوں سے ہوگی۔