قرآن سے دوری اور ریاست کا زوال

April 10, 2024

تحریر: اسرار راجہ… لوٹن
علامہ جلال الدین سیوتی کا قول ہے کہ مسلمانوں نے نو بہ نو انداز میں تین ہزار علوم قرآن پاک سے اخذ کیے ۔ اس قول کا بیان مقدمہ ابن خلدون کے صفحہ نمبر 54پر موجود ہے۔ علماٗ نے اس بیان کی تشریح میں لکھا ہے کہ ریاست کا وجود افراد کے قیام اور اُن کی بود و باش سے مربوط ہے ورنہ زمین کا بنجر و بیابان ٹکڑا ریاست نہیں ہو سکتا۔ ریاست کی تاریخ کے بیان میں ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ اقوام اور حکمرانوں کے قصے، قصیدے اور احکامات کا نام نہیں بلکہ انسانوں کی فکری ، علمی، نظری، مذہبی ، سیاسی اور سماجی جدوجہد اور رویوں کا منظم بیان یا ریکارڈ ہے۔ بیان کردہ عمل و جستجو سیاست کے بغیر متحرک نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اِن اعمال کا کوئی مثبت پہلو اجاگر ہو سکتا ہے۔ سیاست ہی وہ عمل ہے جس میں کشش، جستجو اور فکری و نظریاتی تحریک کو متحرک کرنے کی روح پائی جاتی ہے۔ فقہا و علمائے سیاست و عمرانیات کے مطابق عمرانیات کا علم سب سے افضل ہے جو انسانوں کو دیگر حیوانات سے الگ اور افضل مخلوق ہُونے کا احساس دلاتا ہے۔ عمرانیات افضل علم ہے اور عمرانیات کی سب سے مستند ، معتبر اور سچی کتاب قرآن حکیم ہے۔ اللہ نے قرآن کو علم و حکمت کی کتاب اور تمام ظاہری و باطنی علوم کا منبع و مخزن قرار دیا ہے ۔ علامہ جلال الدین سیوتی کے اس بیان کی جرمن محقیقین نے تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ مسلمان علماٗ و حکماٗ نے ڈیڑھ لاکھ نہیں بلکہ ڈیڑھ سو علوم قرآن حکیم سے اخذ کیئے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ڈیڑھ سو علوم کو پرکھا جائے تو اسکا جوہر بیس جدید علوم جن میں پندرہ سائنسی اور پانچ دیگر علوم مرتب ہوتے ہیں مگر سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں فی الحال دس علوم بھی کار فرما نہیں۔ دُنیا کی جدید لیبارٹریاں ، تھنک ٹینک اور جدید علوم سے آراستہ یونیورسٹیاں ان ہی علوم پر دن رات محنت سے علم و ہنر کے نئے اسلوب وضع کرنے کی جستجو میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان علمااور حکما نے جو کچھ قرآن کریم سے اخذ کیا وہ صرف مسلمانوں کی میراث نہ تھا بلکہ اہلِ مغرب و مشرق کا بھی اُن پر اتنا ہی حق تھا کہ وہ اِن علوم سے اخذ کردہ نتائج پر تحقیق سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔ سورۃ کہف آیت 109میں فرمایا کہ اگر سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور تم اللہ کی باتیں لکھو تو تمہیں مزید اتنے ہی سمندر درکار ہونگے مگر اللہ کی باتیں پھر بھی ختم نہ ہونگی ۔ پھر درختوں ، قلموں اور سمندروں کا بھی ذکر ہے۔ پھر پہلی وحی کا آغاز بھی اسی سے ہُوا کہ پڑھ اُس ربّ کے نام سے جس نے مخلوق کو پیدا کیا اور انسان کو جمے ہوئے خون سے ۔ پڑھ تیرا ربّ بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے اور سکھایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا ۔ سورۃ التین آیت 5میں فرمایا کہ ہم نے بنایا آدمی کو خوب انداز ے پر اور پھینک دیا اُسے سب سے نچلے درجے پر (اُس کے اعمال کے نتیجے میں)۔ آیت 6میں فرمایا مگرجو یقین لائے اور اچھے عمل کئے اُن کیلئے بڑا اجر و ثواب ہے۔ یقیناً جناب غامدی اور جہلمی صاحب قرآن کے بڑے قاری اور احادیث کے بیان پر دسترس رکھنے والے تو ہیں مگر وہ مخلوق کو جوڑنے کے بجائے اپنے نظریے اور اختراحی تشریحات کی بنا پر امت میں تفریق کا باعث ہیں ۔ آج امت کا مسئلہ سردیوں یا گرمیوں کے روزے، نماز و تراویح نہیں اور نہ ہی گھڑی دیکھ کر روزہ افطار کرنے اور آذان کا انتظار نہ کرنا ہے۔ پانچ نمازوں کی جگہ تین نمازیں پڑھنا اور دو کو باہم ملا دینا بھی مسئلہ نہیں اور نہ ہی خورشید ندیم جو جناب غامدی کے معتقد ہیں کا متبادل بیانیہ دین کی خدمت ہے ۔ آج امت کا سب سے بڑا مسئلہ علم سے دوری، سیاسی عدم استحکام ، فرقہ پرستی اور زر پرستی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوتی کے بیان کردہ ڈیڑھ لاکھ اور جرمن محققین کے ڈیڑھ سو علوم کی مستند اور رہنما کتاب قرآن کریم آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ غامدی اور جہلمی سکول آف تھاٹ قرآن سے اخذ کردہ ڈیڑھ لاکھ یا پھر ڈیڑھ سو علوم کی روشنی میں اہلِ اسلام کی اور عالم انسانیت کی خدمت سے قاصر ہیں ۔ آخر متبادل بیانیے والا شخص رحمت الالعالمین اتھارٹی کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ رَب العالمین اور حضورؐ رحمت العالمین ہیں ۔ اگر کوئی شخص حب اللہ اور حُبِ رسولؐ میں اپنی عبادات میں اضافہ کرتا ہے ، بیس تراویح کا اہتمام کرتا ہے ایک منٹ کے وقفے سے ذان کی ادائیگی پر روزہ افطار کرتا ہے یا بند کرتا ہے ۔ اللہ کے حکم کے مطابق وضو کرتا اور نماز کے اوقات کی پابندی کرتا ہے اور سنتیں بھی ادا کرتا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے ، اگر علما کا متبادل بیانیہ دیکھا جائے تو دیگر مذاہب میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں اور لوگوں نے عبادات میں کمی کرتے کرتے نمازیں ہی ترک کر دیں ، زکوٰۃ و عشر کی جگہ چیرٹی اور این جی اوز نے لے لی مگر دین اسلام میں ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی کروڑوں معتقدین اور یو ٹیوب سے حاصل ہونے والے ڈالر مسلمانوں کے دلوں سے حب اللہ اور حب رسول محو کر سکتے ہیں۔ (جاری ہے)