معلّم کا حق تادیب

May 03, 2024

تفہیم المسائل

سوال: اگر مُعلمین ِ قرآن کو طالب علم کو مارنے کی شدید ضرورت پیش آئے ،تو شرع مطہرہ کس حد تک مارنے کی اجازت دیتی ہے؟ (مولاناقاری محمد اسماعیل سیالوی ، کراچی)

جواب: مُعلم کا منصب قابلِ تکریم ہے ، نبی کریم ﷺ کو تعلیمِ الٰہی نے مُعلم بنایا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ مجھے مُعلم بناکر بھیجا گیا ہے،(سُنن ابن ماجہ:229)‘‘۔ مُعلم کے لیے لازم ہے کہ تعلیم دینے کے لیے نرمی اور شفقت برتے اور احسن طریقے سے اور لطیف پیرائے میں تعلیم دینی چاہیے، رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کو اپناناچاہیے اور رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم سے مُتصف ہونا چاہیے ۔مُعلم کے لیے لازم ہے کہ طلبہ کو خیرخواہانہ تعلیم دے، توجہ کے ساتھ پڑھائے ،طلبہ کو چاہیے کہ استاذ کا ادب کریں، ان کے حقوق کی رعایت کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو اس کے چہرے پر مارنے سے اجتناب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی (پسندیدہ)صورت پر پیدا کیا ہے،(صحیح مسلم:2612)‘‘۔علامہ ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی الشافعی لکھتے ہیں:’’علماء نے کہا ہے: ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ چہرے پر مارنا شرعا ً ممنوع ہے، کیونکہ انسان کا چہرہ لطیف ونازک ہے ،وہ اس کے تمام محاسن کا جامع ہے اور اس کے اعضاء بھی لطیف اور نفیس ہیں اور کبھی چہرے پر مارنے سے چہرہ متغیر ہوجاتا ہے اور چہرے کو بدنما کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس ممانعت میں بیوی کے چہرے پرمارنا،یا بیٹے کے چہرے پرمارنا، یا نوکر کے چہرے پر مارنا یا شاگرد کے چہرے پر مارنا داخل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی (پسندیدہ)صورت پر پیدا کیا سو چہرے پر مارنا گویا آدم کے چہرے پر مارنا ہے ،(شرح النووی ، جلد16)‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادریؒ لکھتے ہیں: ’’ضرورت پیش آنے پر بقدرِ حاجت تنبیہ، اصلاح اور نصیحت کے لیے بلاتفریق اجرت وعدم اجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے ،مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں، بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہیے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے۔’’ رسول اللہ ﷺ نے ایک معلم حضرت مرداسؓ سے فرمایا: تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیز کرو ، کیونکہ اگر تم نے تین مرتبہ سے زیادہ سزادی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد: 23،ص:653) ‘‘۔

صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں: ’’اساتذہ بھی بچوں کو نہ پڑھنے یا شرارت کرنے پر سزائیں دے سکتے ہیں ،مگر وہ کلیہ (اصول)ان کے پیش نظر بھی ہونا چاہیے کہ اپنا بچہ ہوتا تو اسے بھی اتنی ہی سزا دیتے۔بلکہ ظاہر تو یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے بچے کی تربیت وتعلیم کا جتنا خیال ہوتا ہے، دوسرے کا اتنا خیال نہیں ہوتا، پس اگر کسی کام پر اپنے بچے کو نہ مارا یا کم مارا اور دوسرے بچے کو زیادہ مارا تو معلوم ہوا کہ یہ مارنا محض غصہ اتارنے کے لیے ہے ، سُدھارنا مقصود نہیں ہے ، ورنہ اپنے بچے کے سُدھارنے کا زیادہ خیال ہوتا،بحث کے آخر میں ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’بچوں کو زیادہ نہ مارے ،مارنے میں حدسے تجاوز کرے گا تو قیامت کے روزحساب دینا پڑے گا‘‘،(بہارِ شریعت ،جلد سوم)‘‘۔علامہ غلام رسول سعیدی ؒ لکھتے ہیں :’’بعض جاہل حفاظ اور قراء نے یہ حدیث گھڑی ہے کہ استاد کی مار سے دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے اور جس جگہ استاد کی مار پڑے گی اس جگہ کو دوزخ کی آگ نہیں جلائے گی،یہ حدیث جھوٹی اور من گھڑت ہے اور نبی ﷺ پر جھوٹ باندھنا اور جو بات آپ ﷺنے نہ فرمائی ہو، اسے آپ کی طرف منسوب کرنا گناہ کبیرہ ہے ،ان جھوٹوں سے پوچھا جائے کہ یہ روایت حدیث کی کس کتاب میں مذکور ہے ؟(نعم ُالباری ، شرح صحیح البخاری ، جلد10،ص:257)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ موجودہ دور میں قرآن کریم اوردینی علوم کے اساتذۂ کرام کو بچوں کی مارپیٹ سے روکا جائے ،یہ دین اور دینی اداروں کے لیے بدنامی کا باعث ہے، نیز حدِّ ادب سے زیادہ مارپیٹ بچوں میں سرکشی پیداکرتی ہے اوریہ منفی نتائج کی حامل ہے ۔اگرچہ حدود شرع کے اندر رہتے ہوئے دین میں تادیب (ادب سکھانے) کی گنجائش ہے اوربچوں کو نماز کی طرف لانے والی حدیث مبارک اس پر شاہد ِ عدل ہے، لیکن اس پر نگرانی کون کرے گا ،پس استاذ صاحب بچے کو تھوڑی دیر تادیباً کھڑاکردیں ، سمجھائیں بجھائیں ، ان کے والد یا سرپرست کو بلائیں، اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب کریم ﷺ کو فرمان ہے: ترجمہ: ’’ تو آپ نصیحت فرماتے رہیں ، آپ بس نصیحت فرمانے والے ہیں ، آپ ان (کافروں) پر مسلط نھیں ہیں، (سورۃالغاشیہ:21-22)‘‘۔ نیز فرمایا: کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں ، (سورۂ یونس:99)‘‘۔ یہ آیاتِ مبارکہ اگرچہ اصلاً قبولِ اسلام کے حوالے سے ہیں، لیکن ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں جبر کی اجازت نہیں ہے ۔( واللہ اعلم بالصواب )