ملاوٹ شدہ دودھ بتاکر بیچنا

May 10, 2024

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص دودھ کا کاروبار کرتا ہے ، لیکن وہ دودھ میں پانی ملاتا ہے اور اپنے گاہک کو بتاکر دیتا ہے کہ میں نے دودھ میں پانی ڈالا ہے، اس وجہ سے قیمت کم دینا، مثلاً دودھ کی قیمت 200روپے فی لیٹر ہے، تو وہ 150روپے لیٹر دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم کیاہے ؟،(محمد ارشاد علی مگسی ، شہداد کوٹ)

جواب: مارکیٹ کے مقررہ نرخ سے کم قیمت پر اشیاء دینے والوں کو یقینی طور پر اس میں فائدہ ہوتا ہوگا، تب ہی ایسا کرتے ہیں یا اپنی دکان اور کاروبار کو بڑھانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔

آپ نے دودھ فروش کے کم قیمت پر دودھ فروخت کرنے اور اس میں پانی ملانے کا بتاکر فروخت کرنے کی بابت سوال کیا ہے ، ظاہر ہے کہ ہر گاہک کو الگ الگ بتا کر تو سارا دن یہ عمل نہیں کرسکتا، آسان صورت یہ ہے کہ کم قیمت پر دودھ فروخت کرنے کے اسباب لکھ کر لگادے، مثلاً : (۱)دودھ میں سے کریم نکالی ہوئی ہے ۔(۲)دودھ میں ملک پاؤڈر ملایا گیا ہے ۔ (۳)دودھ میں پانی اتنے تناسب سے ملایا گیا ہے ، جو بھی تناسب ہو مثلاً 20فیصد یا اس سے کم یا زائد، الغرض جتنی مقدار پانی کی ڈالی ہے ، وہ واضح طور پر اپنی دکان پر لکھ کر لٹکا دے۔

ناخواندہ افراد کو زبانی بتادے ، اگر ان شرائط پر گاہک اُس سے دودھ خریدنے پر راضی ہیں، تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، دودھ میں پانی ملانے کے باوجود اُسے خالص دودھ کہہ کر بیچنا جھوٹ اور دھوکہ ہے۔شریعت میں تجارت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ فروخت کی جانے والی شے میں کسی خامی یا نقص کے بارے میں خریدار کو بتا دیا جائے ،ایسی خریدو فروخت فریقین کی باہمی رضامندی سے جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں ہے: (۱)ترجمہ:’’ جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر اس کا عیب ظاہر نہیں کیا، تو اُس پر ہمیشہ اللہ تعالی ٰکا غضب رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے، (سُنن ابن ماجہ: 2247)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے ، تو آپ ﷺنے اُس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا ، آپ ﷺکی انگلیاں تر ہو گئیں، آپ ﷺنے فرمایا : غلہ والے!یہ کیا معاملہ ہے؟ اُس نے عرض کی:یا رسول اللہﷺ !بارش سے بھیگ گیا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : تو اِسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپ ﷺنے فرمایا : جو دھوکہ دے ، وہ ہم میں سے نہیں ہے، (سُنن ترمذی:1315)‘‘۔

لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ملاوٹ کی اجازت دے دی جائے، حادثاتی، اتفاقی یا ناگہانی طور پر کسی شے میں کوئی نقص پیداہوجائے ،تو فروخت کرنے والے پر لازم ہے کہ اُس کا عیب بتاکر فروخت کرے ، لیکن مستقل طور پر جان بوجھ کر ایسا کرنا گنہگاری ہے۔

ایک گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد دوسرا گناہ اپنے اس کیے ہوئے گناہ کا اظہار کرنا ہے، یہ بڑی جسارت ہے ،حدیث پاک میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ترجمہ:’’ عَلانیہ اور کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کے سوا میری ساری امت کو معاف کردیاجائے گا اور عَلانیہ گناہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا)کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالاہواہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہے: اے فلاں!میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا، رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا،پھر صبح ہونے پر وہ خود اللہ کی پردہ پوشی کو عیاں کردیتاہے ،(صحیح بخاری:6069)‘‘۔

اگر کاروباری حلقوں میں اشیاء کی کوالٹی کا فرق رائج ہے اور خریدار بھی ان اشیاء کے معیار کو جانتے ہیں ، مثلاً گریڈ ا ے اور گریڈ بی یا سی کے درمیان قیمت اور معیار کا فرق عرف میں رائج ہے اور لوگ اس فرق کو جان کر اپنے مطلوبہ معیار کو ترجیح دیتے ہیں، تو شرعاً اس میں قباحت نھیں ہے اور باہمی رضامندی سے یہ بیع جائز ہے۔

ہمارے ہاں جو طلائی زیورات کی خریدو فروخت ہوتی ہے ،ان میں بھی سونا پورے چوبیس کیرٹ کا نھیں ہوتا، بلکہ اٹھارہ تا بائیس کیرٹ کا ہوتا ہے اور سونار کہتا ہے کہ ٹانکہ لگانے کی وجہ سے کچھ ملاوٹ کرنی پڑتی ہے، باہمی رضامندی سے ایسی تجارت ہمارے صرافہ بازار وں میں رائج ہے اور عرف ہے (واللہ اعلم بالصواب)