ماحولیاتی آلودگی کا تدارُک و سدِباب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

May 17, 2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

جدید دنیا کے تمام تر سنگین مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ ماحولیات سے متعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ واحد مسئلہ ہے جس پر تمام دنیا کا اتفاق ہے۔ کیونکہ اس مسئلے کی بناء پر زمین پر موجود تمام انسانوں ہی کی نہیں، بلکہ تمام حیوانات و نباتات ِعالم کی بقاء کا بھی انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا اس اہم اور سنگین نوعیت کے مسئلے کی طرف متوجہ ہے۔ ہر روز اس مسئلے پر کہیں نہ کہیں کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہو رہے ہیں، جن میں اس مسئلے سے نمٹنے کی تدابیر پر غور و فکر کیا جاتا ہے، لیکن ان تمام تر کاوشوں اور غور و فکر کے بعد مسئلہ جوں کاتوں اور ویسا ہی ہے، بلکہ ’’مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘‘کی کیفیت و حالات سے دوچار ہے۔

بلاشبہ کائنات میں کثافت پیدا کرنے والی اشیاء ازل ہی سے موجود اور سرگرم عمل ہیں۔ ان کثافتوں میں ایک تو فطری کثافتیں ہیں۔ جیسے بول و براز اور مردہ اجسام ، لیکن ان فطری کثافتوں کے ساتھ غیر فطری اور انسانوں کی اپنے ہاتھوں پیدا کردہ کثافتیں فطری کثافتوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ، ماحول دشمن اور انسانیت کش ہیں۔ یہ غیر فطری کثافتیں صنعتی ترقی کا انسانیت کو مہلک تحفہ ہے۔

صنعتی ترقی نے فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والے ماحول دشمن فضلوں اور مختلف گیسز کے ذریعے کرۂ ارضی پر ’’زندگی ‘‘کو ہلاکت خیز مسائل سے دوچار کیا ہوا ہے۔ ہر چند کہ نت نئی ، جدید ترین ، خوبصورت و آرام دہ سبک رفتار و تیز گام کاروں، بسوں اور اسی نوع کی دیگر ذرائع آمد و رفت اور رسل و رسائل نے انسانی زندگی کو بے شمار سہولتوں سے فیض یاب کیا ہے، لیکن دوسری طرف انسانی زندگی کو ہلاکت خیز ماحولیاتی بحران میں بھی مبتلا کیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ زمین کے ہر علاقے یا خطے کا ایک Eco-system ہوتا ہے۔ جس کے زیر اثر یہ نظام ِ کائنات فطرت کے اصولوں کے مطابق سر گرم عمل ہے۔ جدید سائنس اور صنعتی ترقی سے جہاں بہت سی سہولتیں انسان کے تصرف میں آئیں وہاں اس ترقی سے کرہ ارضی کے اس معاون و مددگار Eco-system میں تباہ کن اور مہک تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حالانکہ خالق کائنات نے انسانوں کو حکم دیا تھا کہ دنیا کے نظام فطرت میں توازن برقرار رکھا جائے، لیکن اشرف المخلوقات نے ترقی کی بے ھنگم دوڑ میں اس اصولِ فطرت کو یکسر فراموش کر دیا۔

جس کا فطری نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ آج ہم ہلاکت خیز ماحولیاتی آلودگی میں سانس لینے پر مجبور ہیں اور تمام ترقی یافتہ ممالک کے سائنسی ماہرین مل کر بھی اس خرابی کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش اوراس کا ممکنہ تدارک نہیں کر پا رہے ہیں۔ مادیت اور بے لگام سرمایہ کاری کے نظام نے اس فطری توازن کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دین اسلام جدید علوم اور سائنسی ترقی کے ہر گز خلاف نہیں ،لیکن اسلام دنیا اور انسانیت کے لئے زندگی آمیز فائدہ مند فطری وسائل کے تحفظ کی بھی سختی سے تاکید کرتا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین اس ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رہنے کی جو تجاویز اور تدابیر آج انسانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اسلام نے وہ سب کچھ اب سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانیت کی امانت کے طور پر مسلمانوں کے حوالے کر دیئے تھے، لیکن مسلمان اپنے محدود تصور دین کے سبب سے ناتو خودان ماحول دوست فطری اصولوں سے کوئی استفادہ کرسکے اور ناہی انسانیت کو ان اصولوں سے آشنائی عطا کر سکے ۔ اسلام نے مسلمانوں کو ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں درج ذیل احکامات و ہدایات عطا کیں۔

۱:تحفظ آب:۔قرآن و حدیث اور تعلیمات اسلامی میں پانی کو اسلام کے عباداتی نظام اور انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ پانی آدم ِ خاکی کے وجود کا جزو لا ینفک ہے ۔ پانی اس زمین ، دنیا یا کائنات ہی نہیں، بلکہ جنت کی نعمتوں میں سے بھی ایک بہت بڑی نعمت اور انعام ہے، پانی ہی دنیا اور زمین پر وہ عطیہ فطرت اور انعام الہٰی ہے کہ جس پر آج زمین کی ننانوے فیصد انسانی آبادی کا مدارِ حیات ہے۔

پانی زندگی کی اساس اور اصل قوت ہے۔ پانی کے بغیر زمین پر نہ توانسانی حیات باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جنگلی حیات (حیوانات و نباتات) کا کوئی تصور ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پانی پر کسی بھی قسم کا شخصی تسلط یا ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں پانی وہ نعمت خداوندی ہے جس پر سب کا حق ہے اور ساری ہی انسانیت معاشرتی طور پراس کی حفاظت کی ذمہ دار بھی مقرر کی گئی ہے۔

مسند الحارث کی روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : پانی نباتات اور آگ میں تمام انسان یکساں حصہ دار ہیں‘‘۔ اسی لیے آپ ﷺ نے وضو جیسے اہم عبادتی عمل میں بھی پانی کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کو اسراف یا کفر ان نعمت قرار دیا۔ غور کیجئے کہ جب وضو جیسے اہم اور ضروری عبادتی عمل میں یہ احکاما ت ہیں تو دوسرے کاموں کی انجام دہی میں پانی کے محتاط استعمال کی کتنی زیادہ ضرورت ہوگی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے پانی کو پاک و صاف رکھنے اور گندگی و آلودگی سے بچانے کی بھی بہت تاکید اورو عیدیں ارشادفرمائیں ۔ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور ناہی اس میں غسل کرے۔ ‘‘ (بخاری)

ایک اور روایت میں آپ ﷺنے بہتے ہوئے پانی کو آلودہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی۔ پانی گھاٹ، نہر، ندی نالہ کے کنارے رفع حاجت سے منع کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ نجاست کے اثرات مٹی سے بہہ کر پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔ سوچئے کہ جس دین فطرت کی تعلیمات میں پانی کے قریبی مقامات پر بھی نجاست پھیلانے سے منع کیا گیا ہو۔ کیا وہ دین اس کام کی اجازت دے سکتا ہے کہ پورے شہر کی گندگی ندیوں نہروں میں بہادی جائے۔ اسلام نے تو پانی کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے اور سو کر اٹھنے کے بعد بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن مٹکے وغیرہ کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کیا۔اسی طرح پینے کے پانی میں سانس لینے اور پھونک مارنے کی بھی ممانعت موجود ہے۔ (سنن ابوداؤد)

ان روایات و احکامات ِ نبوی ﷺ سے معلوم ہوا کہ دین فطرت اسلام میں فطرت کے قدرتی وسائل کی حفاظت و نگہداشت اور طہارت و پاکیزگی کا کتنا خیال رکھا گیا ہے اور اُن تمام خرابیوں کو دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو ان وسائل کو آلودگی سے دوچار کریں۔

۲:تحفظ نباتات: ہم جانتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کا ایک اہم سدِ باب درخت شجرکاری اور جنگلات ہیں۔ رسول ﷺ نے درخت لگانے کی اور درختوں کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایت و تاکید فرمائی ہے اور درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے اور اس سے کوئی پرندہ ، چوپایا، انسان کھائے تو وہ اس کے لگانے والے کے حق میں صدقہ شمار ہوگا۔ (صحیح بخاری) اسلامی احکامات میں بنجر و بیکار زمین میں کاشت کاری کرنے، جنگلات لگانے کی بھی ترغیب و تاکید ہے۔ درختوں جنگلوں کی حفاظت کے ساتھ درختوں کو کانٹے کے عمل کو سخت ناپسندیدہ فرمایا۔ جنگوں میں درختوں کو کاٹنے اور فصلوں کو اجاڑنے سے سختی سے منع فرمایا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم ماحول کے تحفظ ، آلودگی سے بچنے اور بہترین صاف ستھرے ماحول میں زندہ رہنے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو بہترین حیات بخش ماحول فراہم کرنے کے لئے درخت لگائیں۔ہم آج درخت لگائیں گے تو اس کے سایہ اور پھل سے ہماری نسلیں مستفید و مستفیض ہوں گی۔

۳:جنگلی حیات کا تحفظ : کائنات کے ماحولیاتی نظام کو آلودگی سے محفوظ رکھنے والے Eco-System میں حیوانات ، چرند و پرندو دیگر مخلوقات مثلاً کیڑے مکوڑے ایک اہم کردار رکھتے ہیں۔ دین فطرت اسلام میں جانوروں یعنی چاپایوں اور پرندوں کو پالنے ، ان کی دیکھ بھال کرنے ان کے ساتھ بدسلوکی ، بار برداری میں ان کی بساط سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا گیا ہے۔

چنانچہ روایات کے مطابق ایک عورت کو صرف اس لئے عذاب دیا گیا کہ وہ بلّی جیسے بے ضرر جانور کو باندھ کر رکھتی تھی اور ایک شخص کو صرف اس لئے بخش دیا گیا کہ اس نے ایک پیا سے کتے کو اپنے موزے کے ذریعے کنویں سے پانی نکال کر پلایا تھا۔

جانور خصوصاً چوپائے اور پرندے ہمارے لئے غذا کی فراہمی کا بھی ایک اہم ترین ذریعہ ہیں اور انسانی خوراک کا تقریباً ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ ان چوپایوں اور پرندوں ہی سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں اپنی زمین کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے اور حیات افزا ماحول کی فراہمی کے لئے جنگلی حیات کا تحفظ اور بقا بھی یقینی بنانا ہوگی۔

۴:روشنی کی آلودگی سے تحفظ : روشنی جہاں زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے اور توانائی کااہم ترین ذریعہ ہے، وہاں آج کل کی مصنوعی روشنی ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ ضرورت سے زیادہ روشنی انسانی صحت خصوصاً انسانی بینائی، زمین کے ماحول کو گرم کرنے ، چرند ، پرند اور پیڑپودوں کو بھی متاثر کرتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر سال روشنی سے ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ لہٰذا روشنی کی آلودگی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کم سے کم لائٹس جلائی جائیں اور بلاوجہ لائٹس کا استعمال ہر گز ہر گز نہ کیا جائے۔

۵:صوتی آلودگی:شور شرابا بھی ماحولیات کی آلودگی کا ایک اہم سبب ہے، شور و غوغا انسانوں کی صحت کے لئے بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس وقت زمین پر ہر بار ہواں انسان شور شرابے سے متاثر اور اپنی قوتِ سماعت سے محروم ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ آواز پیدا کرنے والی مختلف النوع مشینوں ، کاروں گاڑیوں کے شور سے ہمارے گھر ، گلی محلے ، سڑکیں ، شاہراہیں، بازار، گاؤں دیہات شہر بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور انسانوں میں بلڈ پریشر ،برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک اور شوگر جیسی خطرناک، مہلک اور لا علاج بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

قرآن کریم میں صوتی آلودگی، بلند آہنگی، کرخت لہجے اورتلخ گفتگو سے منع کیا گیا ہے، بات کرتے ہوئے آواز کو پست رکھنے کا کہا گیا اور سب سے زیادہ شور کرنے والے جانور گدھے کی آواز کو ناپسند کیا گیا۔ (سورۂ لقمان) جب دین فطرت کرخت لہجے میں بات چیت یا گفتگو کرنے سے منع کرتا ہے توپھر شور شرابے کو کیسے روا رکھا جاسکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو عبادت بھی آہستہ اور دھیمی آواز سے کرنے کا حکم دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓکو بلند آواز میں نعرہ تکبیر تک لگانے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ انتہا تو یہ ہے کہ بلند آواز سے قرآن کی تلاوت سے بھی منع کیا گیا کہ مبادا کسی کے آرام میں خلل نہ پڑے (سنن ابوداؤد) رسول اللہ ْﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بازاروں میں شور و ہنگامے کو نا پسند کرتا ہے۔

۶:صفائی ستھرائی:اسلام جہاں انسان کے جسم ، کپڑے، مکان کی طہارت اور صفائی چاہتاہے۔ وہاں اسلام انسانی ماحول گلی محلے، سڑکوں شہروں میں صفائی کی بھی ہدایت کرتاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دو قابلِ لعنت چیزوں بول و براز سے بچو اور اس شخص سے بھی دور رہو جو لوگوں کے راستے یا سائے کی جگہ پیشاب کرے، ‘‘ معلوم ہواکہ کھلے عام رفع حاجت کرنا، سڑکوں پارکوں اور عام گزر گاہوں پر پان اور گٹکے کھا کرتھوکنا ،پیشاب کرنا، گھروں کا گندہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کامو ں کے دوران گرد و غبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب دین فطرت کی فطری تعلیمات کے خلاف ہے۔

مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق کہ ’’میری امت کے اعمال مجھے پیش کئے گئے تو سب سے اچھے اعمال میں یہ دیکھا کہ تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا گیا ہو اور برے اعما ل میں سے یہ دیکھا کہ مسجد میں بلغم ہو اور اسے دفن نہ کیا جائے۔ ‘‘ اس سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کی تعلیم اور کسی دین و ملت میں ہو ہی نہیں سکتی کہ بلغم کوتھوکنے کے بعد پاؤں سے لازمی اس پر کچھ مٹی ڈال دی جائے، تا کہ اس بلغم کے جراثیم ماحول کو بیماری زدہ اور زہر یلا نا بنائیں۔

ہمارے تو مسلم معاشرے میں دریا یا نہروں کے کناروں پربھی گندگی کے ڈھیرملتے ہیں ، غلاظت کی نالیاں بہتی ہوئی ندی ،نہروں اور دریاؤں میں چلی جاتی ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی پیداہوتی ہے اور اسلام نے اس کام سے سختی سے روکا ہے۔ دین فطرت اسلام کی تعلیمات ماحولیاتی آلودگی کو درست کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن بد قسمتی سے امت مسلمہ کے بیش تر افراد انہیں دین کے اہم کاموں میں سے نہیں سمجھتے۔

ہمیں بس وہی ظاہر پرستی اور محدود تصور دین نے گھر لیا ہے ۔وقت اور حالات کا تقاضاہے کہ مسلمان آگے آئیں اور اسلام کا فطری نظام رحمت و عافیت عملاً انسانیت کے سامنے پیش کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ماحول دوست نظام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وضع کیا جائے۔ بے لگام مادّہ پرست اور انسانیت کش سائنس و ٹیکنالوجی نے حسنِ فطر ت کو مسخ کیا ہواہے۔ اقدار سے عاری اس نظام نے ہمیں انسانیت سے گرا کر حیوانوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،ایک جذبات سے عاری بے حس مشین کی مانند۔