گورنر سرور پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے ناراض کیوں؟

April 25, 2019

امتیاز راشد، لاہور

پاکستان کا قیام تقریباً پون صدی میں شامل ہوتا جا رہا ہے اتنے سالوں کے گزرنے کے بعد بھی آج وہی صورتحال کہ ہر شخص پوچھ رہا ہے کیا ہو گا،کیا ہونے جا رہا ہے۔منتخب وزیر اعظم کب آؤٹ ہو گا اب اس کی جگہ کون آئے گایہاں جمہوریت چلے گی یا کوئی اور نظام جنم لے گا آج بھی ہر شخص کی زبان پر اس ملک کے بارے ایک نہ ایک سوال ضرور رہتا ہے۔ اس پون صدی میں بھی آج اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں 1947ءمیںتھے پاکستان میں ان سالوں میں بہت سی حکومتیں آئیں چلی گئیں کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے عوام کے لئے شہد یا دودھ کی نہریں نکال دیں۔اب عوام کبھی بھی دکھی کیفیت سے دوچار نہیں ہو سکتے ہم نے اس پون صدی میں پایا کم ہے کھویا زیادہ ہے ملک کی فلاح وبہبود کے لئے بہت کم کارنامے نظر آئے اس کو اجاڑنے میں سبھی کے کارنامے سامنے آتے رہے کرپشن کے خاتمے کا عزم لیکر آنے والے خود ہی پریشانیوں کی دلدل میں دھنستے نظر آنے لگے وہ کچھ تو پہلے سے کمزور تھے اب انہیں اپنے اور پرائے کمزور کرنے پر لگے ہوئے ہیں تاہم موجودہ لنگڑی لولی حکومت اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لئے ہر قسم کے جتن کر رہی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان خود مضبوط ہیں لیکن ان کی حکومت ان کے اپنے ساتھیوں کی وجہ سے کمزور نظر آ رہی ہے۔ حال ہی میں عمران خان نے اپنے وزراءمیں جس طرح اکھاڑ پچھاڑ کی اپوزیشن کے بعد خود پی ٹی آئی کے بعض دانشوروں کو یہ اکھاڑ پچھاڑ پسند نہیں آئی ۔ اس سلسلے میں تنقید کا سلسلہ جاری ہے ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اب ان خبروں نے زور پکڑنا شروع کر دیا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور وہ امتحان یہ ہے کہ پنجاب کے شریف النفس وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بھی کھڈے لائن لگا کر ان کی جگہ کوئی بہتر کھلاڑی لایا جائے ۔اگرچہ اس قسم کی خبریں مضبوطی پکڑتی جا رہی ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ابھی فی الحال ایسا نہیں ہو گا اور نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے اگر عمران خان نے پنجاب میں تبدیلی لانے کا سوچا تو یہ نہ ہو کہ وہ پنجاب سے بھی محروم ہو جائیں ۔عمران خان وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانے کا رسک نہیں لے سکتے اور نہ ہی ان کو لینا چاہئے۔9ماہ کے دوران پنجاب کی صورتحال اس کی سوچ کچھ کچھ تبدیل ہوتی نظر آئی ہے اگر عمران خان کوئی دوسرا وزیر اعلیٰ پنجاب لاتے ہیں تو پنجاب اسمبلی میں کوئی قدآور شخصیت نظر نہیں آرہی پھر اگر اپوزیشن اپنا کوئی مضبوط امیدوار سامنے لے آئی تو مقابلہ سخت ہو جائے گا۔اپوزیشن پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ لانے کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ بھی شروع کرکے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد کو کم کرکے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور یوں پنجاب میں ایک بڑا دنگل شروع ہو جائے گا۔اس قسم کے دنگل کے لئے پی ٹی آئی کا اکھاڑہ کشادہ نظرنہیں بلکہ تنگ دکھائی دے رہا ہے ہماری ملکی سیاست موسم کی طرح ہے ابھی بارش پھر ابرآلود بادل، پھر خاموشی اور اس کے بعد زبردست بارش ،کیا ایسے موسم میں کوئی ذی شعور شخص گیلارہے بغیر رہ سکتا ہے اگر نہیں تو پھر عمران خان کو عثمان بزدار کی وزارت کی تبدیلی کا سوچنا بھی نہیں چاہئے ورنہ صیاد خود جال میں پھنس کر رہ جائے گا۔عمران خان ابھی اپنے اس وزیر اعلیٰ پر انحصار کریں ورنہ پھر عمران خان کو منیرنیازی کا یہ شعر کچھ شہر کے لوکی ظالم سن کچھ سانوں وی مرن دا شوق سی ،ایک عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہیں گے وہ پہلے پاکستان میں تبدیلی لائیں پنجاب کو ابھی نہ چھیڑیں پنجاب کا بجٹ آنے و الا ہے بجٹ کو عوامی امنگوں پر نبانے کے لئے اس طرف دھیان جائے اگر پنجاب کا بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق آیا تو پھر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو کوئی نہیں ہلا سکے گا۔اب یہ خبریں بھی نمایاں طور پر سامنے آنے لگی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر داخلہ اور پنجاب اسمبلی کے رکن (جنہوں نے حلف نہیں اٹھایا )وہ بھی نئی آن بان کے ساتھ سیاست میں دوبارہ داخل ہو رہے ہیں۔اگر وہ پنجاب اسمبلی میں اپنے رکن ہونے کا حلف اٹھا لیتے ہیں تو یہ سمجھا جائے کہ وہ اب نہا دھو کر تازہ دم ہو گئے اور تازہ دم شخص بہتر طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔خبریں یہ آ رہی ہیں کہ وہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے پھر پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار کہلائے جائیں گے وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔عثمان بزدار واپس چلے جائیں گے اور پنجاب کی صورتحال ایک نئے موڑ پر آ جائے گی۔چودھری نثار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔امن وامان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی اورنج ٹرین پر لوگ سفر کرنا شروع کر دیں گے۔ بیوروکریسی سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو فراموش کرکے چودھری نثار کےساتھ نہایت محنت لگن کے ساتھ کام کرنا شروع کر دے گی۔پنجاب کے کونے کونے میں خوشحالی نظر آنا شروع ہو جائیگی یہ سب باتیں ہوائی ہیں۔ چودھری نثار کی پشت پر ابھی کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی جو انہیں ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔چودھری نثار کے لئے ہنوز دلی دور است والی بات ہے جب ایک سینئر سیاست دان سے چودھری نثار کے بارے میں یہ بات کی گئی کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو اس سیاست دان کا یہ جواب تھا کہ چودھری نثار سے کہہ دو کہ جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا ،لیکن چودھری نثار جتنا ہو سکتے تھے سو چکے ہیں اب ان کے جاگنے کا وقت آ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دن رات محنت کرنے کے بعد بھی سیاست کی دلدل میں پھنستے اور خفیہ ہاتھوں کی گرفت میں آتے دکھائی دے رہیں ہیں اب تو وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیشہ ان کا مذاق اڑایا گیا ہے اب ان حالات میں ان کے ساتھ کچھ یوں بھی ہو رہا ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی بات ہو رہی ہے۔ خبر ہے کہ ان کے قریبی ساتھی دوست اور جماعت فیلو گورنر پنجاب چودھری سرور کو بھی اپنی ہی جماعت کے سینئر لوگوں سے دکھ پہنچنا شروع ہو گیا۔گورنر پنجاب ایک محفل میں پھٹ پڑے کہ سب کچھ ترین نے کرنا ہے تو ہم آلوچنے بیچنے آئے ہیں؟ وزیراعلیٰ پنجاب سے کوئی جھگڑا نہیں ہے گورنر پنجاب چودھری سرور نے یہ کہہ کر جماعت میں ہونے والی ایک بڑی لڑائی کا انکشاف کر دیا اگر یہ لڑائی گورنر پنجاب کے ہاتھ سے نکل گئی تو یقیناً اس کے اثرات وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک پاکستان تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور اس قسم کی باتیں عمران خان کو پریشان بھی کر سکتی ہیں جبکہ اپوزیشن کو اس قسم کے ایشو اچھالنے کا بھی موقع مل جاتا ہے ۔ گورنر پنجاب نے اپنے اس دکھی بیان میں عمران خان کے نہایت قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔گورنر پنجاب چودھری سرور کے اس دکھ بھرے بیان کو سیاسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا یہ وہ لڑائی دکھائی دے رہی ہے جو پیپلز پارٹی کے آخری دنوں میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کے درمیان ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور پھر مصطفیٰ کھر کے ساتھ کیا کیا ہوا یہ ماضی کے اوراق میں پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے ایسا نہ ہو کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے عمران خان کو ایسے اندرونی معاملات کو خود دیکھنا ہو گا جہانگیر ترین کے بارے میں تحریک انصاف کے بہت سے سینئر لوگوں کو بھی تحفظات ہیں جس کا وہ برملا کبھی کبھی ذکر کرتے رہتے ہیں۔عمران خان کو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات سے خود بھی بچیں اور اپنی جماعت کو بھی بچائیں۔ اب ایک اور لندن پلان کی کہانیاں سامنے آنے لگی ہیں ملک کے قیام کے بعد اب تک یہاں بہت سے لندن پلان سامنے آ چکے ہیں جن کی وقت کے ساتھ ساتھ تردید بھی ہوتی رہی اور بعض باتوں میں حقیقت بھی سامنے آئیں اب جو کہانی سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس میں کتنی حقیقت ہے کتنا فسانہ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔