ایک کہانی ’انعام‘

January 04, 2020

آمنہ خورشید

’سب بچے سوچ کر آئیں کہ انہوں نے گزشتہ سال میں سب سے اچھا کام کیا کیا ہے؟ ‘‘ سر شفیق نے کہا ۔چھٹی کا وقت ہو چکا تھا۔ سر نے حاضری کا رجسٹر اٹھایا اور کلاس سے باہر نکل گئے۔ اس دن گھر جاتے ہوئے سب بچے یہی باتیں کر رہے تھے۔

بارہ سالہ عبدل بھی بستہ اٹھائے سڑک کے کنارے چل رہا تھااور سوچ رہا تھاگزرے سال میں میں نے سب سے اچھا کام کیا کیا ہے۔کچھ دیر چلنے کے بعد وہ سڑ ک کے کنارے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ایک طرف ہموار پہاڑ اور اس کے سرمئی پتھر ،درمیان میں بل کھاتی سڑک اور دوسری جانب گہرائی میں بہتا ہوا پرسکون دریا ۔ یہ سب مل کر بھی عبدل کو آج اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے تھے۔

ورنہ وہ اکثر اسکول سے واپس آتے وقت اسی پتھر پر بیٹھ جاتا اور اپنے بیگ سے رنگ اور برش نکال کر فطرت کے ان حسین نظاروں کو کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ۔ آج اسے نہ جانے کیوں دادا ابو بہت یاد آرہے تھے۔دو ماہ پہلےان کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ دادا ابو سے بہت پیار کرتا تھا ۔ان کے انتقال کے بعد بہت دنوں سے اس نے کوئی تصویر نہیں بنائی تھی کیونکہ رنگ سب کے سب سوکھ چکے تھے اور کاغذ تو نہ جانے کب سے ختم تھے۔

’’ کل جب سر پوچھیں گے تو میں کیا جوا ب دوں گا۔میرے پاس تو بتانے کے لیے ایساکچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے دلی سے سوچا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے کنکر دور نیچے بہتے ہوئے دریا میں اچھال دیے۔

’’جی ! سب سے پہلے آپ بتائیں یسریٰ! آپ نے پچھلے سال میں سب سے اچھا کام کیا کیا؟‘‘ سر شفیق کلاس میں آچکے تھے۔وہ اپنے ساتھ سرخ اور سنہری کاغذ میں لپٹا ہوا یک انعام بھی لائے تھے جو انہوں نے میز پر رکھ دیا۔ سب بچوں کی حاضری لینے کے بعد انہوں نے سب سے آگے بیٹھی یسریٰ سے سوال کیا۔ ’سر! میں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک پودا لگایا تھا۔ جو اب بڑا ہو گیا ہے اورابو کہتے ہیں کچھ مہینوں کے بعد یہ پھل دینے لگے گا۔ سر! میرے خیال میں پودا لگانا سب سے اچھا کام ہے ۔ ‘‘

’’بے شک، آپ نے بہت اچھا کام کیا ۔ جی نبیل آپ بتائیں۔‘‘ سر نے نبیل کو اجازت دی جو بار بار ہاتھ کھڑا کر رہا تھا۔

’’سر! میری دادی جان بہت بیمار ہو گئی تھیں ، میں نے ان کی خدمت کی اوران کے سارے کام کرتا تھا ، حتیٰ کہ وہ رات کو بھی آواز دیتیں تو میں بستر چھوڑکر اٹھ جاتا تھا۔ ‘‘

سر شفیق نے اسے بھی شاباش دی ۔ اسی طرح کئی بچوں نے اپنے اچھے اچھے کام گنوائے۔ کسی نے چھوٹے بچوں کو بغیر معاوضے کے ٹیوشن پڑھائی تھی اور کسی نے گھر کی ٹوٹی دیوار کو کھڑا کرنے میں ابو کی مدد کی تھی۔ کوئی باورچی خانے کے کاموں میں امی جان کی مدد کرتا رہا تھا تو کوئی اپنا کمرہ روز صاف ستھرا کرتا تھا۔ اول آنے والے بچے شاہدنے بتایا کہ اس نے سارا سال اسکول سے کوئی چھٹی نہیں ۔

جب عبدل کی باری آئی تو اس نے آہستہ سے کہا،’’سر! مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس سال کوئی بہت ہی اچھا کام کیا ہو۔‘‘

یہ سن کر بچے دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے۔

’’ عبدل ! آپ یاد کرو۔ کوئی تو ایک کام ایسا ہو گا ،جس پر آپ کو گھر والوں سے شاباش ملی ہو گی۔‘‘

لیکن عبدل کوئی جواب نہ دےسکا۔

آخر سر شفیق نے کہا،’’بچو! آپ سب کے اچھے اچھے کام سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ شاباش! آپ سب نے بہترین کام سر انجام دیے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے۔ عبدل نے اس سال کا سب سے اچھا کام کیا ہے۔‘‘ سر نے گویا دھماکہ کر دیا۔

’’لیکن سر! لیکن سر!‘‘ کی دبی دبی آوازیں آنے لگیں۔ خود عبدل کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھنے والے تھے۔ وہ حیران پریشان سا ہو رہا تھا۔ آخر ایک بچے نے سر کی اجازت سے اٹھ کر کہا، ’’سر! عبدل نے تو کسی بھی اچھے کام کے بارے میں نہیں بتایا۔‘‘

سر مسکرائے اور کہنے لگے۔

’’بات یہ ہے کہ میں روز عبدل کو دیکھتا ہوں۔ وہ گھر جاتے ہوئے سڑک پر سے نوک دار کنکر اٹھا کر جمع کر تا رہتا ہے اور پھر نیچے دریا میں پھینک دیتا ہے۔ بچو! راستے سے نقصان دہ چیز کو ہٹا دینا بڑی نیکی کا کام ہے۔ عبدل بیٹا! شاید آپ کو اندازہ نہیں آپ کا یہ چھوٹا سا عمل نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ لوگوں کو آسانی اور سکون پہنچانا بھی بہت بڑی بھلائی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر سر شفیق نے عبدل کو اپنے پاس بلایا اور بہت محبت سے انعام اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔

ادھر عبدل نے بتایا۔’’سر! میرے دادا ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اورجب گاڑی انہیں لے کراسپتال جارہی تھی تو سڑ ک پر پڑے نوک دار کنکروں کی وجہ سے دو ٹائر پنکچر ہو گئے ۔ جب تک ہم نئے ٹائر لگاتے دادا ابو کی سانسیں ختم ہو گئیں۔ ڈاکٹر نے بھی کہا اگر آپ ان کو پندرہ بیس منٹ پہلے لے آتے تو ہو سکتا تھا یہ بچ جاتے۔ سر! میں اس کے بعد سے روز کنکر چنتا ہوں اورسڑک صاف رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں ۔‘‘ اتنا کہہ کر عبدل کی آنکھیں ڈبڈباگئیں۔

سر شفیق نے اسے گلے سے لگا لیا۔’’کوئی بات نہیں عبدل! حوصلہ رکھو ۔ چلو اب انعام کھول کر دیکھو اور سب کو بتاؤ اس میں کیا ہے۔‘‘ سر نے کہا تو عبدل نے آنسو صاف کیے اور انعام کا ڈبہ کھول ڈالا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ اس میں نئی طرح کے رنگ اور برش کے ساتھ ایک بڑی سکیچ بک بھی تھی۔ عبدل کے چہرے پر خوشی سے کھل اٹھا۔