بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے اقدامات

February 23, 2020

جنسی زیادتی بچوں کا استحصال اور ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بچے کی علمی ، معاشرتی اور جذباتی نشوونما کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ بحیثیت ایک ذمے دارمعاشرہ، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے ہم پر اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں لازمی طور پر ایسی خدمات دینی ہوں گی اور پالیسیاں بناکر ان کی تائید کرنا ہوگی جو بچوں کی نشوونما ، صحت اور حفاظت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور کنبوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں کارگر اور مددگار ثابت ہوں۔ ہمیں ان حفاظتی عوامل کو تقویت دینے کے لیے تحقیق، تربیت اور عوامی آگہی کو بھی فروغ دینا ہوگا جو جنسی استحصال سے بچانے والے عوامل کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ’رِسک فیکٹرز‘ کی بھی نشاندہی کریں۔

ناقابلِ قبول عمل

تمام بالغ اور نوعمر افراد کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال ایک ایسا جرم ہے جو انھیں جسمانی اور ذہنی طور پر شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس شدید گھناؤنے عمل کی روک تھام کی ایک جامع حکمت عملی ہونی چاہئے۔ والدین اور دیگر سرپرستوں کو اس حوالے سے آگاہی اور حفاظتی اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے بہتر اقدامات کرسکیں۔

عوامی شعور پیدا کرکے ایک طاقتور پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس پیغام کے ذریعے معاشرے کو یہ احساس دلایا جائے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہر ایک کا مسئلہ ہے، جس کے سدباب کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ عوامی تعلیم کی اس طرح کی کاوشوں کا مقصد یہ ہے کہ جنسی استحصال کے حوالے سے معاشرے میں ’زیرو ٹالرنس‘ پالیسی اور آگہی پیدا کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ بالغ افراد اور بچوں کے درمیان سماجی تعلقات کی حد کہاں ختم اور نامناسب تعلقات کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔

جنسی استحصال کی اصل نوعیت

عوام، خاص طور پر پالیسی سازوں تک درست معلومات کے وسیع تر پھیلاؤ سے بچوں کے جنسی استحصال پر خاموشی اور ممنوعہ موضوع کی فرسودہ سوچ کو توڑنے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ اس مسئلے کا مؤثر حل تلاش کرنے میں بھی آسانی ہوسکتی ہے۔

انسدادی پروگراموں کی جانچ

بچوں سے بدسلوکی سے بچاؤ کے موجودہ پروگرام بنیادی طور پر پری اسکول اور ابتدائی اسکول کے بچوں کو تعلیم دینے پر مرکوز ہیں کہ وہ کس طرح بدسلوکی کے رویوں اور عمل کو پہچانیں، ساتھ ہی انہیں ذاتی حفاظت کی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔ تحقیق سے بہت کم ثابت ہے کہ اس طرح کے پروگرام دراصل بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کو روکتے ہیں۔

اگرچہ پروگرام کی تشخیص قلیل مدتی معلومات کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے لیکن وہ اس طرح کے علم کے حصول اور بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے مابین کوئی رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ تاہم حتمی نتائج کی کمی یا عدم دستیابی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس طرح کے پروگرام بے کار ہیں۔ پالیسی سازوں کو اس طرح کے پروگرامز کے نتائج پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بچوں سے بدسلوکی کی روک تھام کے موجودہ پروگراموں کے طریقہ کار کی کوتاہیوں کو دور کیا جانا ضروری ہے۔ مزید برآں، جنسی استحصال سے بچاؤ کے پروگراموں کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ایسے واقعات میں کمی کو ہر سطح پر محسوس کیا جاسکے۔

بڑوں کو شامل کریں

بہت سے ماہرین کو اس بات پر تشویش ہے کہ بچے اس طرح کے پروگرامز کے ذریعے جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں معلومات تو ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن وہ بڑوں اور خود سے زیادہ طاقتور افراد کی ہوس کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ایسے خدشات درست معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے تقریباً 40 فیصد بچے 6سال یا اس سے کم عمر ہوتے ہیں، جنھیں بہلا کر ہوس کا نشانہ بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کیلئے بالغ افراد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لہٰذا، جنسی استحصال سے بچاؤ کے موجودہ پروگراموں کو مستحکم کرتے ہوئے، ایسے پروگرام بنانے کی بھی کوشش کی جانی چاہئے جو بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کی ذمہ داری بچوں سے بڑوں اور سرکاری اداروں کو منتقل کریں۔

نئے طریقوں کی کھوج تشخیص اور تقویت

بچوں کو جنسی استحصال سے بنیادی طور پر دو نظاموں کے ذریعے بچایا جاسکتا ہے۔ بچوں کا حفاظتی نظام اور فوجداری نظام۔ تاہم دونوں نظام بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کا ازالہ صرف اس کے بعد ہی کرتے ہیں جب یہ زیادتی ہوچکی ہوتی ہے۔ مزید برآں، دونوں نظام بچوں کو جنسی زیادتیوںسے روکنے کے بجائے انصاف کی فراہمی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس طرح ، یہ دونوں نظام نہ تو بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کو کم کرنے اور نا ہی بچوں کے جنسی استحصال کے منفی نتائج کو دور کرنے کا حل پیش کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ،بچوں کے جنسی استحصال کے بیشتر واقعات کی باقاعدہ طور پر فوجداری انصاف یا بچوں کے حفاظتی نظام کو اطلاع نہیں دی جاتی اور نہ ہی بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں موجودہ ادارہ جاتی ردعمل، انصاف اور تحفظ کے مناسب مفادات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ بچوں کے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے جدید طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات فوجداری انصاف اور بچوں کے حفاظتی نظام کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن سزا کے بجائے احتساب اوربحالی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔