گلوبلائزیشن، ثقافت اور ترقی پسند ادب (چوتھی اور آخری قسط)

March 18, 2020

ترقی پسندی کی پانچویں جہت انسانی حقوق کے شعور سے مرتب ہوتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جہاں ترقی پسندی نے صدیوں کا سفر طے کیا ہے وہیں حقوق کے تصورنے بھی ارتقا کی بہت سی منزلیں طے کی ہیں۔ صدیوں کو محیط اس ارتقائی عمل میں حقوق کی نوعیت اور ان کی وسعت میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ آج انسانی حقوق کا دائرہ ماضی کے حقوق کے تصور کے مقابلے میں بہت وسیع ہوچکا ہے۔

آج پُر امن زندگی گزارنا، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا حامل ہونا، ترقی کے لیے یکساں مواقع کا حصول، غرض یہ سب چیزیں اپنی تہہ در تہہ باریکیوں کے ساتھ انسانی حقوق کے دائرے میں شامل ہوچکی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صنفی برابری، بچوں کی صحت مند نشوونما، معاشرے کے پچھڑے ہوئے حصوں کو ان کی پست حالت سے نکالنا، یہ سب بھی انسانی حقوق کے دائرے میں شامل ہیں۔ پھر مختلف علاقوں میں، نیز افراد کے مختلف حلقوں میں کسی بھی بنیاد پر امتیاز برتنا انسانی حقوق کے تصور کے منافی تصور کیا جانے لگا ہے۔

حقوق کا یہ تصور مختلف ملکوں کے اپنے اپنے آئین، حکومتی نظاموں اور مختلف النّوع اداروں سے بڑھ کراب بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم اور مدوّن کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ حقوقِ انسانی کے متعدد معاہدوں، اعلامیوں اور چارٹروں کو جاری کرچکا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے کم از کم اتنا تو ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ حقوق کو یقینی بنانے کے ضمن میں عملی صورتحال کچھ بھی کیوں نہ ہو حقوق کی بابت ایک طرح کا اعتراف اور احساس اب دنیا بھر میں ہورہا ہے اور سماجی انصاف کے تصورات کی طرح حقوقِ انسانی کی مقبولیت کے پیچھے بھی ترقی پسند اہلِ فکر کی کاوشیں مرکزی کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔لیکن یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مختلف حکومتوں اور ریاستوں کی طرف سے، اور مقتدر طبقات کی جانب سے انسانی حقوق کو خطرات آج بھی لاحق ہیں۔

یہی نہیں بلکہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ کو جو ترقی اور وسعت حاصل ہوئی ہے اُس کا ایک ضرر رساں پہلو بھی ہے اور وہ یہ آج کا رپوریٹ سیکٹر نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ لوگ ذرائع ابلاغ پر کیا دیکھیں، کتنا دیکھیں، کیا پڑھیں اور کتنا پڑھیں۔ مشہور ثقافتی مؤرخ ھیبرماس کے بقول انیسویں صدی میں انفرادی آزادیوں کی مقبولیت نے جس پبلک اسپیس کو پیدا کیا تھا وہ پبلک اسپیس آج کا رپوریٹ سیکٹر کے قبضے میں آگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں ثقافت پر گفتگو کرنے والے عوام(Culture-Debating Public) اب ثقافت کو خرچ کرنے والے عوام (Culture-Consuming Public)بن چکے ہیں چنانچہ آج ترقی پسند فکروعمل کا امتحان یہ ہے کہ وہ کس طرح اس پبلک اسپیس کو عوام کے لیے واگزار کروائے۔

ترقی پسندی کی اقدار کا تعین کرتے وقت اس کے عوام دوست کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایسی دنیا میں جو تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکی ہو اور اس میں ظالم ومظلوم، جابرو مجبور، غالب اور مغلوب، امارت وغربت، ملوکیت و رعیت، اور مردانہ بالادستی اور نسوانی زیردستی کے بہت واضح دائرے بن چکے ہوں تو ایسی دنیا میں ترقی پسندی ظالم کے بجائے مظلوم اور قاہر کے بجائے مقہورکا ساتھ دینے کا نام ہے۔ ماضی میں ترقی پسندوں نے دنیا میں پائی جانے والی تقسیم کی ان شکلوں میں اپنا انتخاب کھل کر کیا اور اس ضمن میں ان کی کارکردگی ایسی رہی کہ جس پر فخر ہی کیا جاسکتا ہے۔

آج بھی ترقی پسندی کا یہ راستہ نئے لکھنے والوں کے لیے کھلا ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ فرق ضرور واقع ہوا ہے جیسا کہ اوپر اشارہ بھی کیا گیاہے کہ آج چیزیں اتنی واضح شکل میں نظرنہیں آرہیں۔ رنگ دھیمے پڑ چکے ہیں، کردار بدلتے نظر آتے ہیں اور لفظوں کے معنی تبدیل ہو رہے ہیں۔ سو آج کی دنیا میں ترقی پسندی کا راستہ اختیار کرنا متنوع اور آپس میں گڈ مڈ امکانات میں سے درست راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن اگر انسان دوستی کے تصور کو کلید بنالیا جائے اور انسان کی اجتماعی بھلائی دیگر چیزوں پر فائق تصور کی جائے تو آج کے پیچ در پیچ مشکل حالات میں بھی صحیح انتخاب ممکن ہے۔

ترقی پسندی کے مفہوم کا تعین کرتے وقت ایک اور نکتہ جو پیش نظر رہنا چاہیے وہ ماضی کے حوالے سے سوچ اور فکر کا مناسب انداز ہے۔ اگر ہم انسانی سماج اور ساتھ ہی تاریخ کے مستقل ارتقا پزیر ہونے کو درست سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں اس بات کو بھی مان لینا چاہیئے کہ تاریخ کسی دائرے کی شکل میں خود کو دہرانے کی کوشش نہیں کرتی۔ صدیوں کے انسانی تاریخ کے سفر میں یہ تو ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے واقعات ظہور پزیر ہوں یا مختلف اوقات میں انسانی تجربات میں کسی حد تک یکسانیت نظر آئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ زمانہ ایک جگہ ٹھہر چکا ہے اور یہ کہ تاریخ ایک دائرے میں سفر کر رہی ہے۔ روشن فکر اور ترقی پسند اہلِ دانش نے تو ماضی میں بھی تاریخ کے ٹھہرائو یا اس کے دائرے میں محدود رہنے کے خیال کو سندِ قبولیت نہیں بخشی لیکن اب تو سائنس اور ٹیکنالوجی نے خود ماضی کے بارے میں تحقیق کے اتنے دروا کر دیئے ہیں اور ان تمام رموز کو جو صدیوں سے پردۂ اخفا میں چھپے چلے آرہے تھے ایک ایک کر کے واشگاف کرنا شروع کردیا ہے۔

چناچہ آج ماضی اور حال کو یا ماضی کے مختلف ادوار کو بڑی آسانی کے ساتھ علیحدہ کر کے دیکھا جاسکتا ہے۔ ترقی پسندی کا ماضی کے حوالے سے طرزِ فکر یہی ہے کہ ہر عہد کے انسانی معمولات، مختلف انسانوں کی صف بندیوں، انسانی کاوشوںاور خیالات و افکار، ان سب چیزوں کو ان کے زمانے کے تناظر میں دیکھا جائے اور یہ اصرار نہ کیا جائے کہ ماضی کی چیزوں کو ہو بہ ہو آج کے زمانے پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ ماضی کے سیاسی وسماجی نظام اپنے عہد کی پیداوار تھے، ان کی اصابت اور اثر پزیری بھی ان کے زمانے تک محدود تھی۔ اس زمانے کے گزرنے کے بعد یہ نظام اپنی افادیت کھو چکے لہٰذا اب ان کو دہرانے یا واپس لانے کی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی البتہ ماضی کی افادیت سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا اور وہ افادیت یہ ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں اور یہ دیکھیں کہ کسی خاص عہد میں انسان کی کاوشوں کی نوعیت کیا تھی، انسان کو جو کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ کیوں ہوئیں اور اگر وہ ناکامی سے دوچار ہوا تو اس کا سبب کیا تھا۔ ماضی کے سب تجربات ہمارے لیے اُس وقت کارآمد بن جاتے ہیں جب ہم ان سے اپنی آج کی راہِ عمل طے کرنے میں مدد لیتے ہیں۔

تاریخی طرزِ فکر ہی ہماری اس سمت میں بھی راہ نمائی کرتا ہے کہ ہم ماضی کی شخصیات اور رِجال کے بارے میں کوئی رائے کس طرح قائم کریں۔ ترقی پسند طرزِ فکر یہ ہے کہ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جن افراد یا شخصیات کی بابت ہم کوئی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اپنے عہد میں اس وقت کی کشمکشِ حیات میں کیا کردار ادا کیا تھا۔ ہم جس عہد کی بابت غور کر رہے ہیں، سب سے پہلے ہم اُس عہد میں معاشرے کے تضادات اور اُس دور میں انسانی صفوں میں تقسیم کی نوعیت کو سمجھیں اور یہ طے کریں کہ اس تقسیم میںکون سے لوگ مروجہ نظام کے تسلسل پر مُصر تھے اور کس کے پیشِ نظر نظام میں تبدیلی کا مقصد تھا۔ کون معاشرے کو اس کے مقام پر روکنا چاہتا تھا اور کون اس کو اگلے مرحلوں کی طرف بڑھانے کا خواہش مند تھا۔ کس کے نزدیک نئے افکارقابلِ تعزیر تھے اور کون نئے افکار کو خوش آمدید کہنا چاہتا تھا۔ ماضی کے کسی بھی دور کے حوالے سے جدل اور کشمکش کی نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد ترقی پسندی کا کام آسان ہوجاتا ہے اور وہ اعتماد کے ساتھ غلط اور صحیح ، منفی ومثبت قابلِ مزمت اور قابلِ مدافعت کے درمیان اپنا انتخاب کرسکتی ہے۔

ایسا کرتے وقت وہ ماضی کی قابلِ تنقید اور ساتھ ہی قابلِ تائید و توصیف چیزوں کو آج کے عہد کے معیار پر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتی کیونکہ ادوار کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اقدار میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ معیارات بھی بدلتے چلے جاتے ہیں۔ ماضی وحال کے اس فرق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترقی پسند اگلے مرحلے میں ماضی کی ان تمام کاوشوں کو جو اپنے عہد کے تناظر میں مثبت اور معاشرے کو آگے لے جانے والی تھیں ایک کڑی میں پروتے چلے جاتے ہیں اور یہی کڑی ایک روایت کی شکل میں ڈھل جاتی۔ چنانچہ ترقی پسندوں کے لیے ماضی وحال کے درمیان کسی روایت کو اجاگر اور بیان کرنا مشکل نہیں ہوتا اور وہ ماضی کو دہرانے کی غلطی کیے بغیر ماضی سے ہم رشتہ ہو سکتے ہیں۔

ترقی پسندی کی اقدار میں ایک آخری قابلِ ذکر قدر دنیا کو بدلنے کی اور اس کو مزید بہتر اور خوبصورت بنانے کی انسانی خواہش ہے۔ یہ خواہش انسان کی سر شت میں بھی شامل ہے اور اس کو اسکی اجتماعی زندگی کا بھی خاصہ ہونا چاہیئے۔ ترقی پسندی دنیا کے بارے میں کسی منفی اور سنکیت زدہ تصور کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی۔ انسان نے زمین پر اپنے طویل قیام میں اس دنیا کو بہتر ہی بنایا ہے۔ زندگی کی شب تاریک کو سحر کرنے میں اس نے اپنا خون پسینہ صرف کیا ہے، اپنے تخلیقی جوہر سے دنیا اور زندگی کو زیادہ پر معنی اور خوبصورت بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا سوچتے وقت کسی کے بھی حاشیہِ خیال میں یہ بات نہیں آئے گی کہ دنیا میں خرابیاں اور مسائل ختم ہوچکے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ تضادات سے معمور اس دنیا میں مسائل آج بھی صف در صف انسان کے سامنے کھڑے ہیں، جبر کا نظام بھی اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اس کی غضب ناکی بھی روز افزوں ہے۔ انسان کے درپۂ آزار حقائق اور عوامل کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں چھوڑتے لیکن انسان نے تجربات سے جو شعور حاصل کیا ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں نے اس کو جس قدر راز ہائے حیات کا امین بنا دیا ہے، اس سے امید کی بہت سی قندیلیں جلتی ہیں۔ اگر آج دنیا میں جنگ بازی کا دور دورہ ہے تو امن کے لیے آواز اٹھانے والے بھی آج ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ استحصال کرنے والوں نے اگر استحصال کے نت نئے راستے دریافت کرلیے ہیں تو استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والے بھی آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ با خبر اور حالات سے مصالحت نہ کرنے پر گامزن نظر آتے ہیں۔ ترقی پسندی ہم کو آج کی رزم گاہ میں حیات بخش قوتوں کا ساتھ دینے پر مائل کرتی ہے۔ یہ ہم کو دنیا کو بہتر بنانے اور زندگی کو زیادہ خوبصورت اور ثمر بار بنانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ ترقی پسندی دنیا سے نفرت اور اس کے ساتھ عدم تعلق کے بجائے اس سے محبت کا راستہ دکھاتی ہے۔

ترقی پسندی کی اقدار ادب میں نئے گلزار کھلاتی ہیں۔ لکھنے والے اور تخلیق کار جب انہی اقدار کو اپنے شعور کا حصہ بنا کر اپنے عہد کے تقاضوں کو تخلیقی سطح پر برتتے ہیں تو اس سے وہ ادب اور تخلیقات وجود میں آتی ہیں جن میں ترقی پسند روح بھی موجود ہوتی ہے اور جو ادبی شان کی حامل بھی ہوتی ہے۔ ترقی پسندوں کا پیدا کردہ ادب ماضی میں بھی اس معیار پر پورا اترا ہے اور آج بھی اس کی یہی کیفیت ہے اور مستقبل میں بھی یہ اسی انداز سے آگے بڑھے گا۔