کورونا سے جنگ یا تیسری عالمی جنگ

April 02, 2020

ڈاکٹر سید اقبال محسن

دوسری عالمی جنگ کو اب اتنے سال ہو گئےتھے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی تھی ،امریکہ میں ٹرمپ ،برطانیہ میں بورس جانسن ،ہندوستان میں نریندر مودی اور یورپ کے کئی ملکوں میں ایسے افراد برسر اقتدار آ گئے تھے کہ جن کے نظریات فسطائیت کے بہت قریب تھے۔امریکہ نے چین کو اپنا بڑاحریف تصور کر لیا تھااور تجارتی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا کہ کورونا وائرس نمودار ہوا۔اور اُس نے جنگ کے دونوںبڑے کھلاڑیوں کو دبوچ لیا ۔

اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ کرونا کا آغاز چین سے ہوا اوریوں لگتا ہے کہ اختتام امریکہ میں ہو گا۔ اگر ہم یکم جنوری کو چینی شہر ووہان میں کورونا کا طبلِ جنگ سن سکتے ہیں تو آج 26 مارچ کو امریکہ متاثرہ افراد کی تعداد میں چین سے دو ہاتھ آگے نکل چکا ہے ۔چین کے لئے وبائی مرض کو پھیلنے سےروکناممکن تھا جہاں لاکھوں کیمرے تمام بڑے شہروں میں نصب ہیں اور ہر ایک کی نقل و حرکت پر نظر رکھ کر ایک سے دوسرے کو وائرس کی منتقلی روکی جا سکتی ہے۔ایسانظام امریکہ کو کہاں میسر۔ چنانچہ نیو یارک سے کیلی فورنیااور اب لوزیانا کی ریاست وبا کا مرکز بن کر اُبھر رہی ہے۔اٹلی اورسپین کےباسی تپاک سے ملنے کے لئے مشہور ہیں لیکن بے فکری اور بیماری کو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے برے حال میں چلے گئے۔

یہ بیماری جس شخص کو لگ جائے اُس سے تین (3)مزیدافراد کو لگتی ہے اور وہ تینوں افراداگلے نو(9)افراد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں گویا آپ کے شہر میں کوئی ایک شخص بھی برطانیہ،ایران یا سعودی عرب سے یہ وائرس لے کر آتا ہے تو وہ تین (3) افراد کو بیمار کرتا ہے جس سے نو(9)پھر 27 پھر 81پھر 241اور ساتویں دن 723 مریض شہر میں ہو جاتے ہیں ۔ جن لوگوں نے شطرنج کی ایجاد کا قصہ سن رکھا ہے اُن کے لئے اِس معاملے کو سمجھنا آسان ہے۔قصہ یوں ہےکہ کسی وزیر نے بادشاہ کو شطرنج کا کھیل پیش کیا ۔ بادشاہ نے خوش ہو کر وزیر سے کہا کہ کیا مانگتے ہو؟ وزیر نے دست بستہ عرض کی کہ حضور بس چاول کا ایک دانہ پہلے خانے پر ،دو دانے دوسرے خانے پر،چار دانے تیسرے، اور آٹھ دانےچوتھے پر اِسی طرح ہر خانے پر دگنا کرتے ہوئے چونسٹھ (64)خانے چاول سے بھر دیں ، بادشاہ کو یہ انعام بہت معمولی لگا ۔ چاول کی ایک بوری منگائی گئی(جس میں 4 لاکھ دانے فرض کر لیتے ہیں)جو بیسویں (20) خانے پر ختم ہو گئی ، اب اکیسویں (21) خانےکے لئے دو بوری چاول درکار ہے اوربائیسویں(22)خانےکے لئے 4 بوریاں اور اِس طرح چالیسویں(40) خانے پر 4 لاکھ بوریاں درکار ہوں گی۔چونسٹھ(64) خانوں کے لئے دنیا کی چاول کی تمام پیداوار ختم ہو جائے گی مگر خانے نہیں بھریں گے۔ اِس لئے اگر ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کی دنیا کی کُل آبادی سے کروڑوں افراد اِس بیماری سے متاثر ہوں گے تو اِس میںکسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے۔

آئیے اب نظر دوڑائیں اپنے براعظم ایشیا اور اِس کے جنوبی خطے پر۔افغانستان پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش اور نیپال میں یہ بیماری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ذرا ہندوستان کا رقبہ اور اس کی آبادی دیکھیں جہاں صرف چند سو مریض ! افغانستان میں صحت کا جیسا نظا م ہو سکتا ہے وہ معلوم، مگر کرونا نہایت محدود اِسی طرح بنگلہ دیش اور نیپال، البتہ پاکستان میں آج کی تاریخ میں بارہ(12) سو مریض ہیں جن میں سے ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق 78%ایران سے واپس آنے والے زائرین ہیں ۔ گویا تفتان پر قرنطینہ کا مناسب انتظام ہوتا تو پاکستان اِس وباسے بڑی حد تک بچ نکلتا۔

ہم واپس ووہان چلتے ہیںجہاں سے یہ عالمی جنگ شروع ہوئی ہے۔ہر وبا کا آغاز آہستہ روی سے ہوتا ہے پھر وہ تیزی پکڑتی ہے اور اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ کچھ عرصے عروج پر ٹہری رہتی ہے یعنی جتنے نئے مریض سامنے آتے ہیں اتنے ہی صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔ اسے پلیٹو(plateau)کہتے ہیں اس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے اور پھر ایک دن کوئی نیا مریض نہیں آتا اور پرانے ایک ایک کر کے تندرست ہو چکے ہوتے ہیں ۔ اگر اس کا گراف بنایا جائے تو ایک Bell Curve بنے گا لیکن میں پلیٹو کو اہمیت دیتا ہوں اس لئے اس خط منحنی کی شکل گھنٹی کے بجائے گائے کی ہو گی ۔

ووہان میں 31 دسمبر کو پہلا مریض سامنے آیا اگر ہم اسے یکم جنوری کہہ سکیں تو پندرہ(15) جنوری تک مریضوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ چینی حکومت کو اِس وباکے پھیلنے کا اعتراف کرنا پڑا البتہ مارچ کا وسط آتے آتے چینیوں نے کہنا شروع کیا کہ اب کوئی نیا مریض نہیں آ رہا گویا ڈھائی مہینے میں یہ قدرتی آفت اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اور اب ہم پلیٹو کے دور میں ہیں ۔ وبا کا زور ٹوٹتے ٹوٹتے اپریل آچکا ہو گا اور غالباً چار(4) ماہ میں سائیکل مکمل ہو جائے گا اور ووہان اِس وبائی آفت سے باہر آچکا ہو گا۔ چار(4) مہینے میں ابتدا سے انتہا تک پہنچنا صرف چین کےلئے ممکن ہو سکتا ہے جس میں فوری فیصلے کی اہلیت اور اس پر عمل درآمد کرانے کی قوت ہے۔یورپی ممالک یا امریکہ اور کینیڈا کو اِسی عمل سے گزرنے میں کم و بیش چھ(6) ماہ یا اس سے بھی زائد لگ سکتے ہیں ۔

وطنِ عزیز میں تعلیم اور صحت پر جتنی گفتگو ہوتی ہے اور ناگفتہ بہ حالات کی جتنی دہائی دی جاتی ہے اِس حساب سے تو کرونا کے سدباب کے لئے ہمارا دامن بالکل تہی تھا۔ لیکن ہمارے ہاں یہ وبا ذرا دیر سے پہنچی یعنی جنوری فروری کے مہینے نکال کرمارچ کے مہینے میں مارچ کرتی ہوئی آن دھمکی، پہلے دن چار(4) مریض کراچی میں پائے گئے جن میں ایک کراچی یونی ورسٹی کا طالب علم بھی تھا ۔ یہ چاروں ایران سےآنےوالے زائرین تھےجو تفتان سےکوئٹہ اور وہاں سے کراچی اپنے اپنے گھروں کو آ گئے تھے۔

اس سے اگلے دن گیارہ اور پندرہ(15) دن بعد تعداد پانچ سو(500) ہو گئی ۔ دس(10) دن اور گزرے اور آج 26 مارچ کو یہ تعداد بارہ سو(1200) ہے۔

25 دنوں میں 4 مریضوں سے 12 سو پہنچنا اس لئے حیرت ناک ہے کہ شطرنج کے حساب سے پاکستان میں اِس وقت پانچ لاکھ مریض ہونا چاہئیے تھے ۔لیکن چونکہ یہ مرض ہمارے ہاں دیر سے آیا تو ہمیں آگہی ہو گئی تھی۔ اور ایک غیر سنجیدہ اور Happy Go Lucky قوم ہونے کے باوجود ہم نے کچھ نہ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کیں ۔ اور ہر قسم کے اختلاف کے باوجود ہم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ایک سے تین اشخاص کو مرض لگنے سے بچائے رکھا۔

اگر کراچی (یا صوبہ سندھ) کا گراف ووہان کی طرز پر چلے تو ڈھائی ماہ یعنی پندرہ مئی تک بیماری اپنا عروج حاصل کرے گی ،چونکہ 15 مارچ کو پانچ سو(500) کے لگ بھگ افراد متاثر تھے اور روزانہ اوسطاً سو(100) مریض کا اضافہ ہو رہا ہے، تواگریہی رفتار ہےتو پندرہ(15) مئی تک چھ(6) ہزار متاثرہ افراد ہوں گے جس کے بعد اس کا زور ٹوٹنا شروع ہو گا ۔چونکہ سو(100) مریض روزانہ کا اضافہ بہت ہی معمولی اضافہ ہے اس لئے مریضوں کا علاج اور اُن کو سہولتیں مہیا کرنا بھی آسان ہو گا۔ساتھ ہی یہ امکان بھی ہے کہ اس کا کوئی علاج بھی دریافت ہو جائے جیسا کہ ملک کے معروف ہیماٹالوجسٹ ڈاکٹرطاہر شمسی کرونا سے صحت یاب ہونے والوں کا خون لے کر شدید بیماروں میں منتقل کر کے اُن کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو پھر مرض کا زور اور جلد ٹوٹ سکتا ہے ۔

لاک ڈاؤن اور اس پر سختی سے عمل درآمد صوبہ سندھ میں کسی حد تک دیکھا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر عمل درآمد کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک اور فیکٹر ہے جو وبائی مرض کی روک تھام میں معاون ثابت ہو گا ۔ ابھی میں نے کہا ہے کہ ہم ایک غیر سنجیدہ قوم ہیں (معذرت کے ساتھ)لیکن ساتھ ہی ہمارے اندر بے تحاشہ لچک (Resilience) ہےاور ہم اپنے آپ کو ہر صورت حال میں ڈھال لیتے ہیں اور یہی خاصیت ہمیں Happieness Scale پر اونچے درجے پر رکھے ہوئے ہے ۔ تو آنےوالے تین مہینوں میں شاید ہم اپنے کو ایسا ڈھال لیں گے کچھ احتیاطی تدابیر پر بھی عمل ہو رہا ہو گا۔خطِ غربت سے نیچے والوں کی امید ہے کہ دیکھ بھال ہو رہی ہو گی۔

وبا سے حاصل ہونے والے مواقع سے ہم فائدہ بھی اٹھا رہے ہوں گے اوراس سے پہنچنے والے نقصانات کو برداشت کرنے کی صلاحیت تو ہم میں بے حد و حساب پائی جاتی ہے۔ کیا 2005ء کا کشمیر کا زلزلہ کیا 2010ءکا سیلاب اور اس کے اگلے ہی سال دوسرا سیلاب ، کیا ٹرینوں کے حادثات اور کیا بم دھماکے۔ہم ہر حال میں خوش رہتے ہیں سو یہ کرونا بھی گزر جائے گا اور بہت جلد ہمارے زخم بھی مند مل ہو جائیں گے۔