انفلوئنزا سے کرونا تک

May 06, 2020

تہذیب حافی

کتنا عرصہ لگا ،ناامیدی کے پربت سے پتھر ہٹاتے ہوئے

ایک بپھری ہوئی لہر کو، رام کرتے ہوئے

ناخداؤں میں اب پیچھے کتنے بچے ہیں

روشنی اور اندھیرے کی تفریق میں

کتنے لوگوں نے آنکھیں گنوا دیں

کتنی صدیاں سفر میں گزاریں

مگر آج پھر اس جگہ ہیں جہاں سے ہمیں

اپنی ماؤں نے رخصت کیا تھا

اپنے سب سے بڑے خواب کو

اپنی آنکھوں کے آگے اجڑتے ہوئے

دیکھنے سے برا کچھ نہیں ہے

تیری قربت میں یا تجھ سے دوری پہ جتنی گزاری

تیری چوڑیوں کی قسم زندگی دائروں کے سوا کچھ نہیں ہے

کہنیوں سے ہمیں اپنا منہ ڈھانپ کر

کھانسنے کو بڑوں نے کہا تھا

تو ہم ان پہ ہنستے تھے اور سوچتے تھے

کہ ان کو ٹشو پیپروں کی مہک سے الرجی ہے

لیکن ہمیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ان پہ وہ آفات ٹوٹی ہیں

جن کا ہمیں اک صدی بعد پھر سامنا ہے

وبا کے دنوں میں کسے ہوش رہتا ہے

کس ہاتھ کو چھوڑنا ہے کسے تھامنا ہے

اک ریاضی کے استاد نے اپنے ہاتھوں میں پرکار لے کر

یہ دنیا نہیں دائرہ کھینچنا تھا

خیر جو بھی ہوا تم بھی پرکھوں کے نقش قدم پر چلو

اور اپنی حفاظت کرو

کچھ مہینے تمہیں اپنے تسمے نہیں باندھنے

اس سے آگے تو تم پہ ہے

تم اپنی منزل پہ پہنچو یا پھر راستوں میں رہو

اس سے پہلے کہ تم اپنے محبوب کو وینٹیلیٹر پہ دیکھو

گھروں میں رہو