’’ماں‘‘ جسے سب مانتے ہیں باکمال

May 08, 2020

اسماء نبیل

وہ گلاب جیسے

پیارے سے گال

وہ اک عورت

جیسے سب مانتے ہیں

باکمال

وہ اُونچی کھڑی ناک

جو آج بھی ہے اونچی

تھوڑی کمزورپڑگئی ہے

پراُس کو چھپاتی ہے

اک سایہ جس نے پالا

جس میں در بھی ہے ،دعا بھی

اک روح جو جیتی رہی

ہمارے لیے

اک عورت جو بن گئی

گھر کی میز کامرد

اک عر صہ گزرگیا

ہم بڑے ہوگئے

آج ہم جہاں ہیں

اُس کے قدم چلے

پوتے پوتیاں

نواسے نواسیاں

اب گھٹنوں کے پاس بیٹھے ہیں

اور وہ مسکراتی ہے

اپنا ہر درد چھپاتی ہے

ہم سے بہتر ، ہم کو جانتی ہے

ہر بات سے آگے ، ہماری سوچ سے زیادہ

اپنی عزت کے محاذ پے رہتی ہے

عمر کی فوج کو ہرا دیتی ہے

کیوں کہ جب تک ساتھ ہے وہ

وہ آگے رہنا چاہتی ہے ۔

سب سے ہماری سوچ سے

یہ کیسا قر ض ہے

جو چاہیں بھی

تو اُتارسکتے نہیں

جیتے رہیں گے خوشی خوشی

اس قر ض کے سنگ

پوری زندگی