’’سپیڈودورے‘‘وزیراعلیٰ بزدار عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے سرگرم

May 21, 2020

پنجاب کے سیاسی سماجی اور بیوروکریٹک حلقے اب بظاہر خاموش ہو گئے ہیں۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان جیسے طاقتور ترین بیوروکریٹ کے اچانک تبادلے اور چوہدری برادران کی نیب میں طلبی کے بعد سے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف درجنوں سازشیں بظاہر دم توڑ چکی ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن گزشتہ دنوں چینی، آٹا سکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد سے سازشوں کی جلی ہوئی راکھ میں چند چنگاریاں پھر سے بڑھکنے کی کوششیں کر رہی ہیں بعض سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ چینی، آٹا سکینڈل وزیراعلیٰ کیلئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے چونکہ پھر سے ڈرائنگ روم سازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ کرونا ایس او پیز کی پابندیوں کے باوجود سازشی ٹولے 2 سے 3 خفیہ افطار پارٹیاں کر چکے ہیں موجودہ صورتحال میں وہ کھل کر سامنے بھی نہیں آ رہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ چینی آٹا سکینڈل کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی پوزیشن کافی خراب ہوئی تھی لیکن کرونا لاک ڈاؤن میں پنجاب حکومت کی پالیسیاں دیگر صوبوں سے بہتر ہونے کے باعث وزیراعلیٰ نے اپنی پوزیشن کو وزیراعظم عمران خان کی نظروں میں ایک بار پھر سے مستحکم کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ سازشیں کرنے والے اب وزیراعلیٰ سے خائف نظر آتے ہیں۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بزدار حکومت کیلئے خطرہ بننے والی مضبوط اپوزیشن کا حکومت کے خلاف مارچ کے مہینے میں ترتیب دیا جانے والے پلان کے فلاپ ہونے کے بعد فی الحال خاموش ہو چکی ہے جس کا فائدہ براہ راست بزدار حکومت کو پہنچے گا۔

وزیراعلیٰ نے رمضان میں دھواں دھار سپیڈو دورے کر کے پنجاب کی عوام میں مقبولیت کافی حد تک بڑھا تو لی ہے لیکن وزیراعلیٰ سے بہت سے پی ٹی آئی کے حقیقی حلقوں کو شکایات ہیں کہ وہ زیادہ تر فیصلے اپنے اردگرد موجود خوشامدی لوگوں کے صلاح مشوروں سے کرتے ہیں۔ ان خوشامدی حضرات میں بیوروکریٹس کا ایک مخصوص ٹولہ بھی شامل ہے جو کہ ہر دور میں حکومت کے وفادار ہونے کے دعوے کرتے ہیں ان کے حوالے سے پی ٹی آئی کے حلقوں کا وزیراعلیٰ کو مشورہ ہے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کے وزیراعلیٰ ہیں لہٰذا موسمی بیوروکریٹس کے مشوروں کی بجائے عوامی نمائندوں کی تجاویز کو اہمیت دیا کریں اور انہی سے اگر مشاورت لیں گے تو وزیراعلیٰ کیلئے بھی بہتر ہو گا میری نظر میں چینی آٹا سکینڈل سے وزیراعلیٰ کو شاید زیادہ نقصان نہیں پہنچنے والا چونکہ وزیراعلیٰ عمران خان کی چوائس ہیں اور ان کا حقیقت میں اس سارے چینی سکینڈل کے قصے میں کوئی ذاتی فائدہ بھی نظر نہیں آتا سیاسی ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک عمران خان کو ان پر اعتماد ہے کچھ بھی ہو جائے پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار ہی رہیں گے۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے عید الفطر کے بعد پنجاب میں بڑی تبدیلیوں کا سوچ رکھا ہے ایسے میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار کو چاہیے کہ اچھی شہرت کے حامل اور ایماندار جانے والے سینئر بیوروکریٹس کو وفاق سے واپس لا کر پنجاب میں بڑی ذمہ داریاں سونپی جائیں تاکہ عوام کا بھی کچھ بھلا ہو سکے۔

چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک جیسے ایماندار و دانشمند آفیسر کی تعیناتی کے بعد ان کی فورس میں ان جیسے مزید عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے افسران کو شامل کر کے اہم ذمہ داریاں دینا اب ناگزیر ہو چکا ہے اسی طرح ان بے ہنگم تبادلوں کی آندھی میں ناجائز طور پر تبدیل ہونے سابق ڈی جی ایل ڈی اے عثمان معظم جو کہ عوامی ریلیف کے پراجیکٹ تیزی سے مکمل کرنے کی صلا حیت ماہر ہونے کے ساتھ اچھی شہرت کے حامل بھی ہیں ان کی خدمات بھی انہیں کوئی جاندار زمہ داری دے کر حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ویسے ایک بات ہے کہ وزیراعلیٰ لاء اینڈ آرڈر کی طرف کافی توجہ دے رہے ہیں سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رائے بابر سعید نے کرونا لاک ڈاؤن میں سمارٹ پولیسنگ کر کے غیر متوقع طور پرکرائم کے گراف کو کافی حد تک کنٹرول کر رکھا ہےجیسا کہ ایک بار پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ان دنوں گزشتہ سال کی نسبت کرائم ریٹ کا گراف کافی حد تک نیچےہے جو کہ سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رائے بابر سعید کی بہتر حکمت عملی کا نتیجہ ہے اب ذکر ہو جائے آبِ پاک اتھارٹی کا، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا بیوروکریٹس کے خلاف برسنا بالکل درست ہے۔

چونکہ اصل میں بیوروکریسی نے ہی پنجاب کے باسیوں کو صاف پانی سے محروم کر رکھا ہے آبِ پاک اتھارٹی کے باضابطہ منظوری کے باوجود اس کو فعال کرنے میں بیوروکریسی ہی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ جس کا نقصان بہرحال پنجاب کی عوام کا ہی ہو رہا ہے پتہ چلا ہے کہ گورنر پنجاب پنجابیوں کیلئے صاف پانی کا بندوبست کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں اس کار خیر میں وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی گورنر پنجاب کے ساتھ مل کر بیوروکریسی کی ہٹ دھرمی کو دور کرنا ہو گا۔

اس بار سینئر وزیر عبدالعلیم خان حکومت کے معاملات چلانے میں مکمل طور پر وزیراعلیٰ کے ساتھ مشورے میں ہیں جس وجہ سے بزدار حکومت کو فائدے ہی ہو رہے ہیں جیسا کہ آٹے کی قلت پر کنٹرول کرنا گندم کی سمگلنگ سمیت دیگر کئی کئی معاملات ہیں بعض سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میںبہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جن سے عمران خان فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو اگر ذمہ داریاں دی جائیں تو عوامی مفاد میں نتائج بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان ہیں۔ ان کی معیشت کے معاملات پر گہری نظر اور مہارت ہے، ان کہ بڑی ذمہ داری دینی چاہیے۔مزید یہ کہ وزیراعلیٰ کو ان سفید پوش دیہاڑی دار ڈیلی ویجز خاندانوں کیلئے بھی کچھ کرنا چاہیے جن کے گھروں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

عید آ رہی ہے ان کے بچوں کے بارے میں بھی وزیراعلیٰ کو ضرور سوچنا چاہیے۔ لوگ بہت پریشان ہیں کرونا وبا کی وجہ سے حکومت کو عوامی ریلیف کے منصوبے آئندہ مالی سال کے بجٹ سے نہیں نکالنے چاہیے جس میں ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم کے منصوبے غریبوں کیلئے مزید شیلٹر ہوم بنانے کے منصوبے کو بھی اس مالی سال کے بجٹ میں سے نکال دیا گیا ہے۔چھوٹی موٹی شکایات کے علاوہ لاک ڈاؤن میں بزدار حکومت کی اوورآل کارکردگی دوسرےصوبوں سے بہتر جا رہی ہے اور ذرائع کے مطابق ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت عید الفطر کے بعد کرونا ایس او پیز پر یقینی عمل درآمد سے مشروط مکمل لاک ڈاؤن ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ۔