آشوبِ عالم (ماخوذ)

July 05, 2020

پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہریؔ

شہر خالی، رستے خالی، گلیاں خالی، خانہ خالی

جام خالی، میز خالی، ساغرو پیمانہ خالی

چل دئیے ہیں دوستوں اور بلبلوں کے قافلے

باغ خالی ،شاخیں خالی اور خالی گھونسلے

وائے اے دنیا کہ یار اب یار سے ڈرنے لگے

پیاسے غنچے اپنے ہی گلزار سے ڈرنے لگے

عاشق اب محبوب کے دیدار سے ڈرنے لگے

موسیقار اب ساز ہی کے تار سے ڈرنے لگے

شہسوار اب رستۂ ہموار سے ڈرنے لگے

دیکھنے سے چارہ گر بیمار کو ڈرنے لگے

ساز ٹوٹے اور دردِ شاعراں حد سے بڑھا

شاق گزرا ہم پہ تم پہ انتظارِ سال ہا

جو شناسا تھے ہمارے ہو گئے نا آشنا

ایسا کہنا بھی ہے، جیسے کوئی آفت یا بلا

نالہ و شیون کیا ہر دَر پہ دی میں نے صدا

خاکِ ویرانہ سے اپنے سر کو آلودہ کیا

پھر بھی ساکت پانیوں میں کوئی نہ حرکت ہوئی

خواب غفلت میں جو ڈوبے آنکھ نہ ان کی کھلی

خشک چشمے ہوگئے ،دریا بہت ہی کم رواں

آسماں بھی ہنس دیا، سن کر ہماری داستاں

عشق محرومِ حبیب جام خالی جوش سے

ہم نفس کوئی نہیں ،جو میرے نالے کو سنے

لوٹ آؤ ،تا کہ لوٹیں جانے والے قافلے

لوٹ آؤ پھر اٹھا ئیں ناز اہلِ ناز کے

لوٹ آؤ تا کہ لوٹے مطرب و آہنگ و ساز

زلف پھیلاؤ کہ لوٹے پھر نگارِ دل نواز

در پہ حاضر مظہریؔ ہوں حافظِ شیراز کے

گل فشاں ہوں، چھلکیں ساغر پھر اُسی انداز کے