یار ناصر زیدی، تم بھی چلے گئے!

July 07, 2020

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ دونوں کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ وہاں آ جاتے، گپ شپ لگایا کرتے۔ ناصر اس وقت تک بطور شاعر اسٹیبلش ہو چکا تھا، چنانچہ مشاعروں میں اس سے ملاقاتیں اس کے علاوہ تھیں۔ تاہم مجھے یاد نہیں کہ ہم کبھی دورانِ ملاقات سنجیدہ رہے ہوں۔ پھر کچھ عرصے بعد ناصر دوبارہ لاہور منتقل ہو گیا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا تو ایک روز ایم اے او کالج میں میرے دفتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا شعری مجموعہ تھا۔ اور ہاں! میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ مجھے ’’مولوی‘‘ کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ سارا سال کسی بھی اخبار میں کسی مولوی کی کسی ’’نازیبا‘‘ حرکت کی کوئی خبر شائع ہوتی تو وہ اس کا تراشہ سنبھال لیتا اور پھر ایک روز مجھے ڈاک سے ایک بھاری بھرکم لفافہ موصول ہوتا جو مولویوں کی اس نوع کی کرتوتوں سے پھٹنے والا ہو چکا ہوتا۔ ہمارے درمیان اس نوع کا سلسلہ چلتا رہتا تھا، چنانچہ جب وہ مجھے اپنا شعری مجموعہ پیش کر رہا تھا مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا ’’مولوی! ایک ہفتے میں اس کا دوسرا ایڈیشن آ گیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’واقعی، مگر پہلا کہاں گیا؟‘‘ اس بار ناراضی کے بجائے اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ اس طرح شادی سے پہلے یہ حضرت ایک خاتون پر ریشہ خطمی ہو گئے اور اس پر ایک غزل کہی اور ’’ادب لطیف‘‘ میں (مرزا ادیب کی وفات کے بعد سے وہ اس کا ایڈیٹر بن چکا تھا) شائع کر دی غزل کے اوپر ’’ز۔ ب‘‘ کا نام بھی لکھا جو اس خاتون کے نام کا مخفف تھا۔ موصوفہ عمر میں اس سے بڑی تھیں۔ ناصر زیدی نے ادب لطیف کا وہ شمارا مجھے دیا اور غزل والا صفحہ نکال کر کہا ’’مولوی، پہلے یہ غزل پڑھ‘‘ میں نے غزل پڑھی، تعریف کی اور پھر کہا ’’یار پروف ریڈنگ تم خود کیا کرو، غزل پہ ’’ز۔ ب کے نام‘‘ لکھا ہے، حالانکہ یہ ب۔ ب (بیبے) کے نام ہونا چاہئے تھی۔ اس پر وہ سٹپٹا بھی گیا اور گالیاں بھی دیتا رہا!

ناصر ایک خوبصورت شخص تھا، آخری عمر تک خوبصورت رہا، اس کے سر کے سفید گھنے بال اس کی شخصیت میں مزید حسن پیدا کرتے تھے۔ وہ بہت غیرت مند شخص تھا۔ اس نے مالی بدحالی کے دور میں بھی کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے، وہ وزرائے اعظم کا اسپیچ رائٹر بھی تھا مگر مجھے علم ہے کہ یہ صرف خانہ پُری کا ایک پینل ہوتا ہے۔ اس نے اپنی روزی فری لانسر کے طور پر کمائی، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اس کا ذریعہ آمدن رہے اس نے روزنامہ پاکستان میں مجیب الرحمٰن شامی کی فرمائش پر ایک نہایت معلوماتی کالم شروع کیا۔ ہمارے اخبارات اور جرائد میں اساتذہ شعراء کے اشعار یا ان کے خالق کے نام غلط لکھ دیے جاتے ہیں۔ ناصر زیدی پوری تحقیق کے ساتھ اصل شعر اور اصل شاعر کا نام اپنے کالم میں درج کرتا اور یہ ایک بہت وقیع اور بہت مشکل کام تھا!

اور اب اس اتفاق کو میں کیا نام دوں کہ میں نے چار دن قبل برادرم عامر رضوی کو فون کیا اور کہا یار میں ایک عرصے سے ناصر زیدی کو فون کر رہا ہوں مگر کوئی اٹھاتا ہی نہیں، آپ مہربانی کرکے کسی طریقے سے اس سے میری بات کرا دیں، ایک گھنٹے کے بعد عامر نے مجھے ناصر کے بیٹے عدیل کا فون مہیا کر دیا، میں نے نمبر ملایا تو عدیل بیٹے نے اٹھایا۔ میں نے اسے کہا ابو سے میری بات کرائو، اب ناصر زیدی مجھ سے مخاطب تھا، زبان میں لکنت تھی، اسے فالج ہوا تھا اور اب پہلے سے بہت بہتر تھا، میں نے اسے ہنسانے کے لیے اس کے ’’المعروف‘‘ والے نام سے پکارا، مگر مجھ تک اس کی مسکراہٹ بھی نہیں پہنچی۔ بتانے لگا کہ میں گھر میں واکر سے چل پھر لیتا ہوں۔ یہ بھی اللہ کا شکر ہے۔ اس سے اگلے روز عدیل ناصر کا فون آیا ’’آپ کے دوست کی ڈیتھ ہو گئی ہے‘‘ اور پھر فون پر مجھے صرف اس کی ہچکیاں سنائی دیتی رہیں۔ مجھے یقین ہے اسے میری سسکیاں سنائی نہیں دی ہوں گی!