انزائٹی ڈس آرڈر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟

July 23, 2020

انزائٹی ڈس آرڈر، امریکا میں ذہنی امراض میں سے سب سے عام ہے، جس سے 4کروڑ بالغ امریکی افراد متاثر ہیں۔ انزائٹی ڈس آرڈر کے حوالے سے بِرگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل کی ڈائریکٹر آف سائیکالوجی اور کلینکل سائیکالوجسٹ نتالی ڈاٹیلو کہتی ہیں، ’’اگر ہم نفسیاتی نقطہ نظر سے انزائٹی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ ایک رونما ہونے والی صورتِ حال یا واقعہ کی ’مِس کیلکیولیشن‘ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم انزائٹی اس وقت محسوس کرتے ہیں، جب ہم اندازوں سے زیادہ کوئی بُری بات کے واقع ہونے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو کم درجے کا سمجھ بیٹھتے ہیں‘‘۔

لائسنس یافتہ امریکی سوشل ورکر اور ’لائف اِز گُڈ کِڈز فاؤنڈیشن‘ کے بانی اِسٹیو گراس خوف اور انزائٹی کو غیرفطری عمل قرار نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسانوں کی فطرت میں ایک ’منفی تعصب‘ پایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ڈرانے والی اور خوف دینے والی معلومات کو مثبت اور عزم کو پختہ کرنے والی معلومات کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیتا ہے۔

انزائٹی انسانوں کے اس قدیم دور میں بھی پائی جاتی تھی، جب انھیں زندہ رہنے کے لیے غذا، پانی اور چھت کی تلاش کرنا پڑتی تھی۔ ان چیزوں کا مستقل خوف انھیں ’فائٹ-آر-فلائٹ موڈ‘ میں رکھتا تھا۔ ’’جب آپ کا جسم، ایڈرینالین (دل کی دھڑکن تیز کرنے والا مواد) زیادہ بناتا ہے تو انزائٹی اس کا نفسیاتی جواب ہوتا ہے اور یہ مادہ ہر وقت خوف کا پتہ لگانے (تھِریٹ ڈِٹیکشن) کے کام پر معمور ہوجاتا ہے۔

دونوں ماہرین کا ماننا ہے کہ پُراُمیدی (آپٹی مِزم) کو پروان چڑھا کر انزائٹی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ نتالی ڈاٹیلو کہتی ہیں، ’’میرا خیال ہے کہ ’پُراُمیدی‘ مثبت سوچ، اچھی توقع رکھنے، بامقصد رویہ اپنانے اور پر اعتمادی کا امتزاج ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ’آدھا گلاس بھرا ہوا ہے‘ والی سوچ کو پرامیدی کہا جائے۔ اس سے زیادہ پرامیدی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ زندگی میں جو کچھ پیش آرہا ہے آپ اسے کس طرح بیان کرتے ہیں، خصوصاً وہ چیزیں جو آپ کی توقعات کے مطابق نہیں ہوتیں یا آنے والی زندگی کے بارے میں آپ کیا توقعات رکھتے ہیں‘‘۔

اس صورتِ حال کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ جب زندگی میں چیزیں آپ کی توقعات کے مطابق و قوع پذیر نہ ہورہی ہوں تو آپ انھیں اپنے تاریک مستقبل سے تشبیہہ دینے کے بجائے یہ تصور کریں کہ یہ ایک عارضی حادثہ ہے، جو گزر جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی سوچ، حقائق سے انکار کے زمرے میں نہیں آتی؟ اس حوالے سے اِسٹیو گراس کہتے ہیں کہ پُرامیدرویہ کاحامل شخص زندگی میں بُری چیزوں کو قبول کرتا ہے، تاہم وہ انھیں لے کر زندگی سے مایوس نہیں ہوجاتا۔ ’’ہمارے نزدیک پُرامیدی کی تعریف خود میں، دوسروں میں اور اپنے ارد گرد اچھائی کودیکھنے، محسوس کرنے اور اس پر توجہ مرتکز رکھنے کی استعداد ہے‘‘۔

ماہرین کے مطابق، درج ذیل طریقوں پر عمل کرکے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں پُرامیدی کے جذبات کو پروان چڑھا اور انزائٹی گھٹا سکتا ہے۔

اپنی سوچ بدلیں

نتالی ڈاٹیلو انزائٹی کے مسائل پر کام کرنے کے دوران اپنے کلائنٹس کی سوچ کو بدلنے کے لیے ’ٹاک تھراپی‘ استعمال کرتی ہیں۔ ’’میں اپنے کلائنٹس کے ساتھ اس بات پر گفتگو کرتی ہوں کہ ہمارے سوچنے کے انداز کس طرح عصبی طور پر ایک گھیرے میں آجاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے، دوسروں اور دنیا کے بارے میں جس طرح سوچتے ہیں، اس میں تبدیلی لے آئیں تو نئی راہیں تخلیق کرنے میں وقت لگتا ہے‘‘۔

ہمارے دماغ کے ایک حصے کا نام آربیٹل فرنٹل کارٹیکس (OFC)ہے، یہ حصہ دانش، فہم اور جذباتی مراکز سے حاصل ہونے والی معلومات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ ان لوگوں میں حجم کے لحاظ سے زیادہ بڑا اور زیادہ نشونما پاتا ہےجو ’زیادہ پُرامید‘ اور ’کم فکرمند‘ ہوتے ہیں۔ ڈاٹیلو سب سے پہلے یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے کلائنٹس کو یہ باور کراسکیں کہ کسی بھی واقعے، حادثے یا بات کو لے کر اس پر سوچنے کے مختلف زاویے ہوتے ہیں۔ وہ ایک سانحے کی نشاندہی کرتی ہیں اور پھر اپنے کلائنٹ کے ساتھ بحث و مباحثہ کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس کے سوچنے کا کون سا زاویہ ’مسئلے کا باعث‘ ہے۔

سوالات کے ایک سلسلے کے ذریعے ڈاٹیلو اور ان کا کلائنٹ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ جب کوئی سانحہ یا واقعہ پیش آیا تو اس وقت اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا اور وہ اب اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے سائنسی علم کی بنیاد پر یہ اندازہ لگاتی ہیں کہ متاثرہ شخص مستقبل کے واقعات سے متعلق پیشگوئی کرنے کے لیے اپنی سوچوں کا کتنا استعمال کررہا ہے۔

اس میں سب سے اہم کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے کے نئے زاویے اپنانے کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ ’’بہت سارے لوگ مشق کے ذریعے اپنے سوچنے کا انداز بدلنے اور اس میں استحکام لانے کے لیے جلد ہمت ہار جاتے ہیں۔ اس علاج کا سب سے اہم حصہ ’مینٹیننس اسٹیج‘ ہوتا ہے، جہاں ہم پریکٹس کے ذریعے اپنے سوچنے کے انداز کو بڑی حد تک بدل چکے ہوتے ہیں، جب متاثرہ شخص اس اسٹیج سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کے سوچنے کے انداز میں حقیقی بدلاؤ آتاہے اور اس کے سوچنے کا نیا انداز ہی اس کا فطری (اور مثبت) انداز بن جاتا ہے‘‘۔

مزید برآں، ماہرین کے مطابق متاثرہ شخص اپنی انزائٹی پر قابو پانے کے لیے یا اگر کوئی چاہتا ہے کہ انزائٹی کبھی بھی اس کے پاس نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ پُرامید لوگوں کے درمیان رہے، ایسے لوگوں کی فہرست بنالے جن کے ساتھ وقت گزار کر اور بات کرکے وہ اچھا محسوس کرتا ہے، روزانہ کوئی مثبت کام کرنے کی نیت کرے، چیزوں پر غور کرے اور خود میں مُسکرانے کی عادت پیدا کرے۔