ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

September 09, 2020

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں

توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں

مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں

دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً

تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد

سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں

تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز

اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں