شہباز شریف کی گرفتاری، قانون پر عملداری یا سیاسی انتقام؟

October 01, 2020

آخر وہی ہوا جس کا اعلان حزب اختلاف کے تمام رہنما کرچکے تھے کہ میاں شہباز شریف کو گرفتار کرلیا جائیگا۔گلگت بلتستان اور مقامی حکومتوں کے انتخابات سے پہلے اس گرینڈ گرفتاری سے ملک میں مزاحمتی سیاست کا بگل بج چکا ہے اگر اسی دوران مولانا فضل الرحمٰن کی بھی گرفتاری عمل میں آ گئی تو مزاحمتی سیاست کی شدت میں مزید اضافہ ہوجائیگا جس کے بعد اگر حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک چلنے کے امکانات قوی ہوگئے ہیں، ریلیوں اور دھرنوں میں مذہبی قوتیں بھی شامل ہوگئیں اور اجتماعی استعفے آگئے تو اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے سوا کوئی آپشن نہ بچے گا۔

اگر یہ سب کچھ ہوگیا تو پاکستان کی سیاست نئی کروٹ لے لے گی اور حقیقت میں نیا پاکستان بننے کی امید روشن ہوگی کیونکہ موجودہ حکمرانوں تو نیا پاکستان بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ شہباز شریف کو نوازشریف کے فیصلوں کے خلاف نہ جانے پر جیل میں قید کردیا گیا ہے۔ کیا شہباز شریف کی گرفتاری قانن پر عملدآمد ہے یا ذاتی انتقام ؟ بہرحال شہباز شریف کی گرفتاری مصالحتی سیاست کی ناکامی کا ثبوت ہے۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں جو نعرے بازی ہوئی وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

عدالت میں شہباز شریف کے وکلا ءاعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا ریفرنس دائر ہونے کے باوجود انکی گرفتاری کاکوئی جواز نہیں ،شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دئیے کہ شہباز شریف سے کوئی ریکوری نہیں ہونی ہے، انکے اثاثے منجمد ہو چکے ہیں، شہباز واحد قائد حزب اختلاف ہیں جنہیں نیب حراست میں رکھتا ہے اور تفتیش نہیں کرتا،منی لانڈرنگ میں بھی شہباز شریف کیخلاف کوئی ثبوت موجود نہیں،کسی گواہ نے نہیں کہا کہ شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کی، تمام آمدن پر ٹیکس ادا کیا اور ان کا آڈٹ بھی کروایا۔

نیب 20 سال بعد ٹیکس ریٹرن کو نہیں مان رہا، 26 کروڑ روپے کا فرق نیب نکال نہیں سکتا، خرچ مانتے ہیں، آمدن نہیں مانتے، زرعی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں، زرعی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں، نیب کی بدنیتی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ عبوری ضمانت کاا خراج ثابت کرتا ہے کہ نیب قوانین اور اختیارات اتنے لامحدود ہیں کہ دلائل کچھ بھی ہوں لیکن ضمانت کی مخالفت کرکے نیب اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکتا ہے ۔ کئی سال کی قید کے بعد اگر کسی ملزم کے خلاف ایک بھی الزام ثابت نہ ہوسکے تو نیب پوپلے منہ سے عدالت کو بتا دے گا کہ الزامات ثابت نہ ہوئے ہیں اسلئے ضمانت دیدی جائے۔

یہ وہ المیہ ہے جس سے نیب کی غیر جا نبداری پر بڑے سوال اٹھ رہے ہیں لیکن بطور ادارہ اس نے خصوصاً حزب اختلاف کے خلاف مقدمات میں شفافیت کو ہرگز برقرا ر نہ رکھا ہے۔گزشتہ دو سالوں میںشریف خاندان اور ن لیگ کے اراکین ہی نیب اور دیگر اداروں کے نشانہ پر ہیں۔رانا ثنا اللہ ہوں ،حنیف عباسی ہوں ،احسن اقبال ہوں یا فواد حسن فواد ،ہر روز تین اور چار حکومتی وزراء پریہ فرض عائد کردیا گیا تھا کہ حزب اختلاف بالخصوص ن لیگ کو نہ صرف دیوار کے کے خلاف لگانا ہے بلکہ انھیں پابند سلاسل کرکے عوام رائے عامہ ہموار کرنی ہے۔ان کے خلاف کرپشن کا جناتی غبارہ پھلا کرگرینڈ مہم چلائی گئی ، دوسالوں میں کرپشن اور غیر جانبدار احتساب پر مبنی حکومتی بیانیہ بری طرح فلاپ ہو چکا ہے۔

کے پی کے میں مالم جبہ اور بلین ٹری سمیت دیگر کیسوں میں نیب کوئی کارروائی نہ کرکے اپنی غیر جانبداری ثابت نہ کرپایا ہے۔ نامکمل منصوبہ بی آرٹی زبردستی شروع کرنے کے باوجوداس کیس کو نہ کھولا گیا ۔پانچ بسوں کے جلنے کے بعد بی آرٹی آپریشن معطل کردیا گیا لیکن مجال ہے کہ کسی کو اس جانب دھیان دینے کا خیال بھی آیا ہو کہ قوم کا سو ارب روپیہ نالائقی ، نااہلی اور کرپشن میں ضائع کردیا گیا، جبکہ جنھوں نے ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کیا ، ملک کو ایٹمی طاقت بنایا انھی پر کرپشن کے الزمات لگا کر انھیں پابند سلاسل کردیا گیا، انکے میٹرو بس منصوبے ہنوز رواں دواں ہیں جنھیں یہ بند نہ کرسکے۔

شہباز شریف کا اورنج لائن ٹرین منصوبہ پہلے مخصوص الزامات لگا کر ثاقب نثار نے اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل کیلئے روکا جو تین سال ہوگئے ہیں ابھی مکمل ہی نہیں ہوپایا ہے ابھی بھی حکومت اس دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے اجتناب نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے اس منصوبے پر واجبات اسی طرح بڑھ رہے جس طرح بجلی کمپنیوں کا گردشی قرضہ بڑھتا ہی جارہا ہے لیکن نام نہاد ماہرین معاشیات ملک کو حقیقی دیوالیہ بنانے کے راستے پر گامزن ہیں۔حالات یہ ہیں دو سالوں میں آٹے کا تھیلا 700 سے بڑھ کر 1300 تک پہنچ چکا ہے لیکن وزیر تجارت ہرروز میڈیا پر آکر اعلان جاری کردیتے ہیں کہ قیمت 850 روپے مقرر ہے لیکن یہ نہیں بتاتے یہ تھیلا دستیاب کہاں ہے؟

عوام تو یہ بھی سوال کررہے ہیں ہمیں وہی کرپٹ رہنما واپس دیں جو آج 105 روپے کلوملنے والی چینی55 روپے میں ، 220 روپے والا گھی 110 روپے ،105 روپے لٹر والا پٹرول 65 روپے،1 لاکھ بیس ہزار روپے تولہ والا سونا55 ہزار روپے،168 روپے والا ڈالر 102 روپے ،350 والا ڈاکخانے کا پارسل80 روپے میں بھیج رہے تھے۔پانی ، بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ دوسالوں میں ادویات کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد اضافہ کے بعد مزید 262 فیصد اضافہ کے بعد عوامی حلقوں میں یہ بیانیہ راسخ ہوگیا ہے کہ اس حکومت کو جانا ہی ہوگا یہ عوامی مفاد کی ایک بھی پالیسی بنانے میں سنجیدہ ہیں نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جان بچانے والی دوائیاں تو مہنگی کردی ہیں لیکن جان لینے والی ابھی بھی سستی ہیں ۔ سائیں قائم علی شاہ کا مذاق اڑانے والے پنجابیوں کو اللہ نے اس سے بھی بڑا سائیں دے دیا ہے ۔بیشک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔