سیاسی لڑائیاں جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں

October 01, 2020

اسلام آبادافغان اعلیٰ سطح کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ جو ایک بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد آئے تھے۔ ایک بھرپور مصروفیات پرمشتمل دورہ مکمل کر کے واپس چلے گئے ہیں۔اس دوران انھوںنے صدر پاکستان۔وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف،سینیٹ کے چیئرمین، قومی اسمبلی کے اسپیکر اوروزیرخارجہ سمیت دیگراہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جن کے بارے میں ماضی میں یہ تاثر موجود تھا کہ وہ ’’بھارتی لابی کے افغان راہنما ہیں‘‘وہ تاثر کب کا ختم ہوچکااورحالیہ دورے میںان کی تقاریراوراہم رابطوںمیں ہونےو الی ان کی گفتگو میں اس بات کے بہت شواہد بھی محسوس کیے گئے۔ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کا دورہ پاکستان ایک ایسے موقعہ پر ہوا ہے۔ جب طالبان اور افغان حکومت امن کوششوں کے تحت مذاکرات میں مصروف ہیںاورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فوج کو اپنے انتخابات سے پہلے واپس بلانے کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں اور بالخصوص دوحہ میں کی جانے والی امن کوششوں میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔

وفاقی وزیر شیخ رشید کے انکشافات اور بیانات نے ملکی سیاست میں خاصا بھونچال پیدا کر رکھا ہے اور اس مرتبہ انہوں نے سیاسی پیشگوئیاں نہیں کیں بلکہ انکشافات میں ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کو بھی متنازع بنا سکتے ہیں گوکہ یہ تمام سوالات پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ ادوار اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مبینہ اقدامات اور فیصلوں کے حوالے سے کیے گئے ہیں اس لئے جہاں مسلم لیگی حلقے انہیں وزیر موصوف کی دروغ گوئی اور الزامات سے تعبیر کر رہے ہیں اور عوام بھی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان ادوار میں وہ خود بھی میاں نواز شریف کی حکومت کا حصہ رہے ہیں تو انہوں نے اس وقت کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی؟ پھر نواز شریف کی حکمرانی کا دور ختم ہوئے دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اس دوران انہوں نے یہ بیانات اور انکشافات کیوں افشا نہیں کئے اسی طرح جب وہ راولپنڈی میں ’’گیٹ نمبر4‘‘ کے سیاسی معززین کی آمدو رفت سے ہی نہیں بلکہ دن۔ وقت اور ملاقاتوں کے دورانیوں سے باخبر تھے تو انہوں نے یہ بھید اب تک کیوں اپنے سینے میں رکھے۔

ظاہر ہے کہ پہلے وہ پیشگوئیاں کرتے تھے جو کبھی صحیح بھی ہو جاتی تھیں لیکن اس مرتبہ چونکہ حالات کے پیش نظر تمام معلومات انہیں دستیاب ہوتی ہیں اس لئے ان میں غلطی کا امکان خاصا کم ہے جن میں ملاقاتوں کے حوالے سے ان کی نشاندہی کرنے والوں نے خود اعتراف بھی کیا ہے اور ملاقاتوں کی توجیحات بھی پیش کی ہیں۔ امر واقعہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آزادی کے بعد سے نصف دورانیے میں فوجی حکمرانوں کی حکومتیں رہیں وہاں مضبوط اور مستحکم جمہوریت کا تصور ہی محال ہے اسی جمہوریت میں سیاستدانوں کی بقول شیخ رشید تمام سیاسی لیڈر بالخصوص جو اپوزیشن میں ہیں ’’گیٹ نمبر4‘‘ کی پیداور ہیں کوئی خاص اچھنبے کی بات نہیں۔ پھر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کہ آج اپوزیشن کی جانب سے فوج پر تنقید کرنے والوں کو شیخ صاحب غدار قرار دیتے ہیں لیکن اس بات کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ وہ ’’طنزاً‘‘ کہتے تھے کہ فوج نے ستو پیئے ہوئے ہیں اور عدلیہ اعتکاف میں بیٹھی ہے۔

بہرحال شیخ صاحب کے انکشافات نے ملک کا سیاسی منظر تبدیل کردیا ہے اور یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیئے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے حکومت پر سیاسی دبائو کو اگر ختم نہیں تو اسے کافی حد تک غیر موثر کرنے میں شیخ صاحب کے بیانات اور انکشافات نے اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24 نشستوں کیلئے عام انتخابات جو پہلے 8اگست کو ہونے تھے۔

لیکنکورونا وائرس کے باعث ملتوی کر دئیے گئے اب یہ انتخاب 15 نومبر کو کرانے کا صدارتی اعلان کردیا گیا ہے۔ جن کیلئے اپوزیشن کی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی نامزدگی کا فیصلہ بھی کرلیا ہے اور حکومت بھی اپنی حکمت عملی وضح کر رہی ہے۔اس مرتبہ یہاں ہونے والے انتخابات ایک انتہائی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ حکومت نے اس بات کے بعد گلگت بلتستان کو ملک کے پانچویں صوبے کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے رد عمل میں کیا گیا ہے ۔ جس کے تحت مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی صورتحال تبدیل کی تھی۔

اب ایک طرف تو خود پاکستان میں بھی یہ سوچ موجود ہے کہ اگر ہم گلگت بلتستان کی آزاد حیثیت ختم کر کے اسے اپنا صوبہ بناتے ہیں تو کہیں مقبوضہ کشمیر میں ہمارا کیس کمزور تو نہیں ہوگا۔ ایسےہی خدشات کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے بعض حریت راہنمائوں کے بھی ہیں۔ جس میں سید علی گیلانی پیش پیش ہیں۔ پھر اس فیصلے کو خطے میں بھی ایک اہم حیثیت اس حوالے سے بھی ہوگی کہ سی پیک منصوبہ اس ضمن میں کلیدی حیثیت کا حامل ہوگا۔

لیکن ظاہر ہے کہ حکومت کو ملک میں پانچواں صوبہ بنانے کے لیے آئین میں تبدیلی کرنا ہوگی. جس کے لئے ایک مرتبہ پھر حکومت کو ایوان میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت پیش آئے گی. جو اپوزیشن کو آمادہ کئے بغیر ممکن نہیں. بصورت دیگر پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا ہوگا اور وہی صورتحال ایک بار پھر پیش آسکتی ہے اور ایوان میں وہ مناظر بھی جو فیٹف کے بل کی منظوری کے موقع پر دیکھنے میں آئےتھے. چونکہ گلگت بلتستان اب پاکستان کی دفاعی اور اقتصادی سلامتی کیلیے انتہائی اہم بن چکا ہے۔

اس لئے اسلام آباد اور راولپنڈی کے فیصلہ سازوں کو یہ کوشش کرنی ہوگی کہ متنازعہ صورتحال کم سے کم پیدا ہو. ملک میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف زیادہ ردعمل اخبارات میں بیانات اور ٹی وی پر ٹاک شوز تک محدود ہے یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھنے میں آ جاتے ہیں۔

لیکن سڑکوں پر احتجاج اور اجتماعات کے حوالے سے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی خاصی ”تہی دامن“ نظر آتی ہیں،البتہ جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے غیر معمولی طور پر خود کفیل نظر آتے ہیں. جس کا انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ عملی مظاہرہ بھی کیا ہے اور حکومت کو بھی قدرے تشویش میں رکھا ہوا ہے. اب ان کے خلاف آمدن سے زیادہ اثاثوں کے الزام میں نیب کارروائی کے لیے گرین سگنل کا منتظر ہے. درحقیقت موجودہ حکومت نے مولانا کے خلاف ”احتسابی عمل“ کا آغاز کرنے کے لیے منصوبہ بندی تو خاصے عرصے سے کر رکھی ہے لیکن جس موزوں وقت کی حکومت منتظر ہے وہ آنے کو نہیں دے رہا۔

اب نیب کی طرف سے جس کاروائی کی ابتدا ہوئی ہے وہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے فوری بعد ہوئی ہے. جس سے جے یو آئی میں ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت کے خلاف ایک متحرک ،موثر اور فعل اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مولانا کے خلاف یہ کارروائی شروع کی جا رہی ہے، دوسری طرف مولانا کے جانثاران بھی حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر حضرت صاحب کو نیب کی عدالت میں طلب کیا گیا تو وہ تنہا نہیں بلکہ ان کے ہمراہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کارکنان ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ”جیل بھرو“ تحریک بھی شروع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی ادراک ہے کہ کسی صوبے کی جیلوں میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان کے کارکن اس میں سما سکیں۔

بہرحال سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے لندن میں ان کے مسلسل رابطے ہیں اور لگتا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کا آخری اور بھاری پتھر مولانا فضل الرحمن کو ہی اٹھانا پڑے گا۔