کے پی کے میں اسپیشل افراد کیلئے کسی یونی ورسٹی میں الگ شعبہ نہیں

November 22, 2020

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صحت مند اور کام یاب زندگی گزارے، اسےکوئی محرومی، محتاجی یا معذوری نہ ہو۔تاہم، ہمارے ارد گرد کچھ افراد ایسے بھی بستےہیں، جو ذہنی یا جسمانی طور پر تھوڑے کم زور یا معذور تو ہوتے ہیں،لیکن کسی سے کم نہیں ہوتے۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی ذات نے ہمیں جو نعمتیں عطا کیں یا جن سے محروم رکھا ،اس میں ضرور کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ دیکھا جائے تومعاشرے کا ہر فرد ہی کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے، لیکن معذوری ایک ایسی کڑی آزمائش ہے، جس کا اندازہ صرف اس میں مبتلا افراد ہی کو ہو سکتاہے اور ہمارے سماج کا تو المیہ ہے کہ یہاں خصوصی افرادکے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتا ہے۔

گوکہ اللہ تعالیٰ خصوصی افراد کو بے حد ہمّت و طاقت سے نوازتا ہے، مگر معاشرتی رویّےآگے بڑھنے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں حالاں کہ بطور معاشرہ ہماری یہ ذمّے داری ہے کہ خصوصی افراد کو حوصلہ دیں، ان کا سہارا بنیں۔ترقّی یافتہ ممالک میں خصوصی افراد کو ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معمول کے تمام کام معاشرے کے دیگر افراد ہی کی طرح بآسانی انجام دے پاتے ہیں۔

تاہم ، بدقسمتی سے پاکستان میں خصوصی افراد گوں نا گوں مسائل کا شکار ہیں۔نجی و سرکاری سطح پر سہولتوں کا فقدان، تعلیم و روزگار کے نا مناسب انتظامات ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔تاہم، خصوصی افراد کوملک و قوم کا کار آمد شہری بنانے اور ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی واجتماعی اور سرکاری سطح پر انہیں تمام ترسہولتیں فراہم کی جائیں۔

عبدالواجد

اس ضمن میں پشاور یونی وَرسٹی سے 8سال قبل بی ایڈاورعلمِ شہریت (civics) میں ماسٹرز کرنے کے بعدبھی ملازمت کے لیے سرگرداں، جسمانی معذوری کے شکار عبدالواجد کا کہنا ہے کہ’’ مَیں ایک طویل عرصے سے اسپیشل کوٹےکے تحت ملازمت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوں، مگر نتیجہ صفر۔ اگر کسی سرکاری ادارے میں 100سیٹیں ہوں توکوٹا سِسٹم کے تحت دواسپیشل افراد کو ملازمت ملتی ہےاور جن اداروں میں 100افراد نہ ہوں تو وہاںاسپیشل افرادکو بھرتی ہی نہیں کیا جاتا۔

جیسے،اگر کوئی ادارہ49افراد پرمشتمل ہے، تووہاں اسپیشل فرداُس وقت تک بھرتی نہیں ہوسکتا جب تک پہلے100افراد بھرتی نہ ہوجائیں ۔تعلیمی قابلیت اور ڈگریز ہونے کے با وجود بھی مجھے اس لیے کسی کالج میں ملازمت نہیں مل رہی کہ جب 100لیکچرار بھرتی ہوں گے، تب ہی دواسپیشل افراد بھرتی کیے جائیں گے۔‘‘ عبدالواجد نے مطالبہ کیا کہ ملازمت کے سلسلے میں تعداد کے بجائے نشستوں کا حساب رکھا جائے، تاکہ اسپیشل افراد کوٹا سسٹم سے مستفید ہو سکیں۔

ایاز خان

دوسری جانب ا سپیشل لائف فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو، ایاز خان کا کہنا ہے کہ ’’حکومتی دعووں کے باوجود اسپیشل افرادکے لیے قائم کیا جانے والا ڈی پی آر فنڈتین سال سے استعمال ہی نہیں ہو رہا۔گرانٹ اِن ایڈ کے نام پر ہر سال درخواستیں تو وصول کی جاتی ہیں، لیکن معاملات تاحال تعطّل کا شکار ہیں۔ گزشتہ 4 سال سے خیبر پختون خوا میں اسپیشل افراد سے متعلق مجوّزہ بل اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا جا رہا۔ 2018ء میں وزیرِاعلیٰ خیبر پختون خوا نے ان افراد کے لیے ملازمتوں میں مختص کوٹا دوفی صد سے بڑھا کرچار فی صد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اُس پر بھی تا حال عمل نہیں کیا جا سکا۔‘‘

ڈی پی آر فنڈ کیوں استعمال نہیں ہو رہا، اس حوالے سے محکمۂ سماجی بہبود و ترقّی نسواں کے ڈائریکٹر، حبیب اللہ آفریدی کا کہنا ہےکہ ’’ ڈی پی آر فنڈمیں 80کروڑ روپے موجود ہیں ۔

حبیب اللہ آفریدی

تاہم،جب تک یہ اکاؤنٹ ، اکاؤنٹینٹ جنرل کے ساتھ شیئر نہیں ہوتا اور ان کی منظوری نہیں ملتی، تب تک اس میں موجود رقم اسپیشل پرسنز کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کی جا سکتی۔لیکن اسپیشل افرادکی مالی امداد اور تا عُمر حکومت کا محتاج رکھنے کے بجائے انہیں ہنر مند بنانے کےلیے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں، تاکہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔‘‘

محکمۂ سماجی بہبود و ترقّیٔ نسواں کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں اسپیشل فرادکی رجسٹرڈ تعداد 1 لاکھ 45 ہزار 405 ہے، جن میں 69ہزار 891مرد ، 35ہزار 781خواتین اور 39ہزار735دیگر افراد ہیںاور ان میں خواجہ سرا اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جن کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ واضح رہے،افراد باہم معذور ی میں بینائی،قوّتِ گویائی و سماعت سے محروم ،ذہنی و جسمانی معذوری میں مبتلا افردا شامل ہیں۔اس ساری صورتِ حال کے بارے میں جب ڈپٹی ڈائریکٹرپرنسپل حیات آباد اسپیشل ایجوکشن سینٹر، نذیر شاہ سے بات کی گئی،تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ صوبائی حکومت ہر سال غیرترقیاتی فنڈ کی مَد میں 10کروڑروپے فراہم کرتی ہے، جب کہ پانچ کروڑ روپے آلات کی خریداری ، مرمّت اور طلبہ کے لیے مفت کتب اور بس سروس کی فراہمی وغیرہ کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں، مالی سال21- 2020ء کے بجٹ میں دس فی صداضافہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘اس ضمن میں ڈائریکٹرا سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس ،قسمت خان کا کہناہے کہ 1986ء کے بعد پہلی مرتبہ ہمیں اپنی عمارتوں کی تعمیر و مرمّت کے لیے فنڈ دیا گیا، جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ہمارے اداروں کے اساتذہ انتہائی تربیت یافتہ ہیںاور اگر پشاور یونی وَرسٹی میں اسپیشل ایجوکیشن کے شعبے کا قیام ممکن ہوجائے تو طلبہ کے بہت سے مسائل حل ہوسکیںگے اور اُن کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے در بھی وا ہو جائیں گے۔کمپلیکس کے زیرِانتظام چلنے والے اداروں کو اس سال ایف اے تک اَپ گریڈ کردیا گیا ہے۔ تاہم، نابینا طلبہ کے لیےفی الحال پرائمری اور جسمانی معذوری کے شکار بچّوںکے لیے مِڈل تک تعلیم کی سہولت دست یاب ہے۔ صوبے کے کالجز اور پشاور یونی وَرسٹی میں مخصوص شعبے کا قیام ہر صُورت ممکن بناناچاہیے ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کے پی کے میں اسپیشل افراد اعلیٰ تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں، جب کہ یونی وَرسٹی آف پشاور میں توسِرے سےاسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ موجود ہی نہیں۔جب کہ پنجاب اور سندھ کی جامعات میں اسپیشل ایجوکیشن کے شعبہ جات موجود ہیںاور تربیت یافتہ اساتذہ بھی، مگر کے پی کے کے عوام ان دونوں سہولتوں سے محروم ہیں۔‘‘پشاور یونی وَرسٹی میں اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے متعلق ڈائریکٹر سماجی بہبود، حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ’’ حیات آباد کمپلیکس میں رواں سال ایف اے کی کلاسز شروع کر دی گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے کنونشن اور عالمی قوانین معاہدات و معیار کو مدّ ِنظر رکھتےاور اسپیشل افراد کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے پالیسی کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے، جس میں ملازمت کا کوٹا دو سے بڑھا کر چارفی صد کردیا جائے گا۔

اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی عمر میں دس سال تک کی رعایت دی جائے گی۔ پراجیکٹ پوسٹس میں دو فی صد کوٹا مختص کیا جائے گا ، نئی عمارتوں کو درکار سہولتوں کے مطابق تعمیر کیا جائے گا۔ حکومت، گھروں یا پلاٹس کے حوالے سے جو بھی اسکیمز متعارف کروائے گی ،ان میں دس فی صد پلاٹس اسپیشل پرسنز کے لیے مختص ہوں گے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والےاسپیشل طلبہ کے ہاسٹلز کے یوٹیلٹی بلز، ٹیوشن فیس اورامتحانی فیس معاف کر دی جائے گی۔

کامران بنگش

علاوہ ازیں، ان کی فلاح و بہبود کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کو بھی فعال کیا جائے گا۔‘‘ اسی حوالے سے وزیرِاعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے اعلیٰ تعلیم، کامران بنگش کا کہنا ہے کہ ’’پشاور یونی وَرسٹی میں اسپیشل افرادکے لیے الگ شعبے کے قیام کی تجویز زیرِ غور ہے،جس پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ طریقۂ کار کے مطابق کام کیا جائے گا۔

گرچہ گزشتہ 70برسوں میں اس حوالے سے کچھ کام نہیں ہوا۔ تاہم، ہماری حکومت اہم اقدامات کررہی ہےاور اُمیدہے کہ جلد اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔