اقلیتوں کا مطالبہ

November 29, 2020

گل و خار … سیمسن جاوید
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی نظریں اقلیتوں کے تحفظ کے بل پر مرکوزتھیںمگر سینیٹر انوار الحق کی سرپرستی میں اندرون سندھ گھوٹگی ،سکھر اور حیدر آباد کے دور ے کے بعدجبری تبدیلی مذہب اور نکاح کی جو سفارشات حکومت کو پیش کی گئیں ان میں حقائق کو توڑ مروڑ کر اس طرح پیش کیا گیا کہ ان واقعات میں جتنی شدت بتائی جا تی ہے ، اتنی نہیں ہے۔ مطلب کہ اس دفعہ بھی اقلیتوں کے تحفظ کے بل کی منظوری کی توقع رکھنا بے فائدہ ہے۔اس وقت یہ احساس شدت سے پایا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں میں موجود اقلیتی نمائندے امتیازی قوانین کے خلاف آوازاٹھانے اور ان کے تحفظ کیلئے قانون سازی کروانے میں کس قدر بے بس ہیں جب کہ یہی نمائندے رٹے رٹائے جملے کہنے کے ضرور پابند ہیں کہ انہیں برابری کے حقوق حاصل ہیں، اوپر سے مذہبی وزارت برائے اقلیتی امور ختم کرکے انسانی حقوق کی وزارت بنا دی گئی ہے اور مذہبی امور کی وزارت میں ایک بھی اقلیتی نمائندہ موجود نہیں،یہاں تک کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور میں بھی کوئی اقلیتی نمائندہ موجود نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ اکتوبر میں سینیٹ نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کو بھیج دیا جس نے بحث کے بعد یہ بل مسترد کردیا،نئے بل کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی سندھ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد بھی سیینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل کمیٹی کی سفارشات سامنے آئی ہیں ،اس سے پہلے سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق شعیب سڈل کمیشن 2015کے فیصلے پر حکومت کو عمل در آمد کرنے کا حکم دیا تھاجس پر مذہبی وزارت نے فوری طور پر قومی کمیشن برائے اقلیتیں تشکیل دے دیا ،اس تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا، قومی اسمبلی قانون ساز اسمبلی کہلاتی ہے اور اب اٹھارویں ترمیم سے صوبائی حکومتیں بھی خود مختار ہو چکی ہیں، چاروں صوبوں سے اقلیتوں کے تحفظ کا قانون نہیں بن سکا ،صوبہ سندھ میں چائلڈ پرو ٹیکشن میرج ایکٹ موجود ہے جس کی روح سے 18 سالہ لڑکی کی شادی کی اجازت ہے ،جب کہ صوبہ پنجاب میں عمر کی حد 16 سال ہےجس کی وجہ سے کافی کمپلیکشن سامنے آ رہی ہیں خیر حکومت کوشش کر رہی ہے کہ چاروں صوبوں میں شادی کی عمر برابر مقرر کی جائے،یہی وجہ ہے کہ اقلیتیں بار بار یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کیلئے ووٹ کا حق دیا جائے، اپنے نمائندوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجنے کا حق حاصل نہیں ہے۔حالانکہ ان کے نمائندوں کا ووٹ کسی بھی پارٹی کو برسراقتدار لانے کیلئے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قومی اسمبلی کی 90 سے زائد نشستوں کی ہار یا جیت پر اقلیتی ووٹرز اثرانداز ہو سکتے ہیں کل تک کچھ لوگ جْدا گانہ الیکشن کے خلاف تھے او رالیکشن کو ختم کروانے میں پیش پیش تھے جس میں غیر سیاسی ،چرچ امبریلہ کے نیچے چلنے والی این جی اوز اور مذہبی قیادت، جنہوں نے مل کر1982 میں لاکھوں پٹیشن پرویز مشرف کو جمع کر وائیں جس کی دلیل یہ دی گئی کہ جْدا گانہ اطرزِ انتخاب نے اقلیتوں کو قومی دھارے سے جدا کر کے رکھ دیا ہے اور وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں ۔ان میں بہت سارے اوورسیزپاکستانی مسیحی بھی موجود ہیں اور یورپی یونین نے بھی جدا گانہ انتخاب کو ختم کرنے کے لئے پرویز مشرف پر زور دیاجس پر پرویز مشرف نے ایگزیکٹو آرڈر سے اقلیتوں کے جداگانہ الیکشن ختم کر دیئے بعد ازاں پی پی پی کی حکومت نے اقلیتوں کے جداگانہ الیکشن کے خاتمہ کیلئے باقاعدہ قومی اسمبلی سے بل پاس کرواکر اسے قانونی شکل دے دی جو اٹھارویں ترمیم کا حصہ بن گیا۔ سلیکشن کی اس ترمیم کے خلاف سب سے بڑ ی مذہبی اقلیت مسیحیوں نے آواز بلند کی اورسپریم کورٹ میں اپیل کی کہ اقلیتوں کو اسمبلیوں میں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کیلئے ووٹ کا حق دیا جائے۔مگر سپریم کورٹ نے اس درخواست کو قومی اسمبلی کو ریفر کر دیا کہ وہ اقلیتوں کے الیکشن کے لئے قانون سازی کرے۔اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان نے کہا کہ اس وقت جب کہ الیکشن سر پر ہیں اقلیتوں کے لئے الیکشن کا انتظام نہیں کیا جا سکتا، اب چار الیکشن ہو چکے ہیں مگر اقلیتوں کا یہ درینہ مطالبہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا، سلیکشن کا سسٹم انتہائی ناقص ہے۔ان کی کامیابی اور نامزدگی سیاسی جماعتوں کی صوابدید پر ہے۔سیاسی جماعتوں کے پاس ان اقلیتی امیدواروں کی نامزدگی اور ترجیحی فہرست کے لئے کوئی قانون یا مقررہ اصول موجودد نہیں لہٰذا وہ اپنی مرضی سے یہ فہرست ترتیب دیتی ہیں۔ انتخاب کا طریقہ نہ صرف پیچیدہ اور پراسرار ہے بلکہ یکطرفہ بھی ہے، اس میں ووٹ کاسٹنگ یا خفیہ بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ نہیں ہوتی۔ یہ نمائندے نہ اقلیتی عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور نہ ہی ان میں اقلیتی تحفظ کیلئے قانون سازی کروانے کی سکت ہے۔ لہٰذا سلیکشن کا عمل بالکل غیر جمہوری ہے۔ اقلیتوں کا سپریم کورٹ،چیف آف آرمی سٹاف ،صدر مملکت اور وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ ہے کہ انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ خود اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔