حاجی نواز کھوکھر مرحوم

January 16, 2021

تحریر:وقار ملک۔۔۔کوونٹری
اللہ کی خصوصی عنایتوں کا ظہور کائنات کے مخصوص بندوں کے ذریعے ہوتا رہتا ہے، منتخب بندے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے رب ذوالجلال کا نور کائنات کی ظلمت میں اس طرح بکھیرتے ہیں کہ تا قیام قیامت ان شعاؤں میں ضو پاشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پیارے حاجی نواز کھوکھر کا سلسلہ تھا ،حاجی نواز کھوکھر کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی ذات میں خود ایک انجمن یا دبستان کہے جانے کے مستحق ہیں، ان کی شخصیت پہلو دار تھی ،حاجی نواز کھوکھر کے کئی رخ تھے اور ہر رخ بڑا روشن متنوع اور جامع تھا، انتہائی اچھی سیاسی بصیرت کے مالک تھے، صحافت ،سیاست، تعلیم سے گہرا رابطہ اور تعلق تھا ،پڑھے لکھے افراد اور ملک سے محبت کرنے والوں کیلئے کھڑے ہو جاتے ،پاکستان اور افواج پاکستان کے نام پر سینے پر ہاتھ رکھتے اور آنکھیں جھکا لیتے، مرحوم ایک درویش صفت انسان تھے اور علم کا ایک ذخیرہ رکھتے تھے، انسانیت کی خدمت کرنے کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، میری ان سے پہلی ملاقات طالب علمی کے زمانے میں اس وقت ہوئی جب بحیثیت طالب علم ناچیز نے پاکستان سنٹر راولپنڈی میں’’ پاکستان کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری “ پر تقریر کی ، حاجی نواز کھوکھر بحیثیت ڈپٹی اسپیکر اور مہمان خصوصی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہو ئے اور تالیاں بجانے لگے اور میری تقریر ختم ہونے تک کھڑے رہے اور جب میں اسٹیج سے نیچے اترا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس نہیں بلایا بلکہ خود اسٹیج سے اتر کر میرے پاس آئے اور مجھے گلے لگایا، جب انعامات دینے کی باری آئی تو آپ نے مجھے ذاتی طور پر بھی انعام سے نوازا اور پھر اس کے بعد میرا ان سے ایک رشتہ بن گیا ،اسمبلی جانا اور اسمبلی میں حاجی نواز کھوکھر سے ملنا ایک معمول بن گیا، اسمبلی میں چائے پینا ہم طالب علموں کیلئے ایک اعزاز ہوتا ،میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ہمیشہ اسمبلی جاتا اور حاجی نواز کھوکھر سے ملاقات کرتا ،آپ کا طالب علموں بالخصوص تعلیم حاصل کرنے والوں سے محبت کا اپنا ہی ایک انداز تھا، تعلیم پر بے پناہ خرچ کرتے اور جب بھی کسی طالب علم کو داخلہ لینے یا کتابوں کی خریداری میں دشواری ہوتی فوری اس کا مسئلہ حل کرتے اور مجھے کہتے کہ تعلیم حاصل کرو اس کیلئےخرچے کی پروا نہ کرنا بلکہ اگر کوئی طالب علم پڑھنا چاہے تو اسے میرے پاس لاؤ، آپ کی ایک منفرد شخصیت تھی، انسانیت کی خدمت کچھ اس طرح کرتے کہ خود نہ کھاتے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیتے، کئی مواقع پر آپ کو گھر میں اکیلے ٹہلتے دیکھا، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ایک غریب بندہ تھا اسے کہا کہ شام کو آ جانا جو ممکن ہوا مدد کر دوں گا اسی کا انتظار کر رہا ہوں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو حاجی نواز کھوکھر کی یاد دلاتی ہیں ،حاجی نواز کھوکھر ایک شخصیت اور باوقار انسان تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی اور کبھی کسی سے ناراض نہ ہوتے سب کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے سیاست میں اپنا نام اور مقام کچھ اس طرح پیدا کیا کہ کوئی شخص ان کی خلاف بات نہیں کر سکتا ہر شخص ان کی تعریف کرتا ہی نظر آئے گا بلکہ ان کی یاد میں آنسو بہاتا ہے، ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ حاجی نواز کھوکھر میرے دوست ہیں اور میرے ہی سب سے زیادہ قریب ہیں ناچیز بھی یہی سمجھتا ہے کہ حاجی نواز کھوکھر میرے قریب سب سے زیادہ ہیں اور وہ میرے ہیں جس کا انھوں نے خیال بھی رکھا اور ہمیشہ ناچیز کو عزت دی اور میرا خیال رکھا مجھے تعلیم کے حصول کیلئے ملک سے باہر جانا پڑا تو رابطہ منقطع ہو گیا لیکن دل اور دماغ میں آپ ہمیشہ رہے ،کیونکہ آپ کی شخصیت نہ بھولنے والی تھی کافی عرصہ گزر جانے کے بعد مجھے ریاض ملک سے ایک کام کے سلسلے میں رابطہ کرنا تھا تو میں نے نواز کھوکھر کو فون کیا آپ نے اسی وقت مجھے ریاض ملک کا نمبر دیا اور کہا کہ میرا نام لے لینا یا پھر مجھے بتانا میں خود بات کر لوں گا لیکن بعد میں ضرورت ہی نہ پڑی ، آپ ہمیشہ مجھے کہتے کہ کوئی کام ہو تو ضرور بتانا ، میں آج بھی نواز کھوکھر کو ایک ہیرو مانتا اور سمجھتا ہوں کیونکہ آپ دراصل انسانیت کے دوست اور ہمدرد تھے آپ کی وفات سے جہاں غرباء کو نقصان ہوا وہاں ایسے تمام افراد پریشانی غم و افسوس میں مبتلا ہو گے جن کے مسائل کا حل نواز کھوکھر کے در سے ہوتا تھا جنھیں شفقت اور محبت ملتی خدا تعالیٰ مرحوم کی آخرت کی تمام منزلیں آسان کرے انھیں جنت الفردوس کا مکین بنائے اور لواحقین و پسماندگان کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آپ کیےچاہنے والوں باالخصوص پیر فاروق بہاالحق شاہ جیسے پیارے دوستوں و احباب نے نواز کھوکھر مرحوم کے حوالے سے تعزیتی تقاریب منعقد کیں اور معلوماتی مضامین لکھ کر تعلق اور دوستی کا حق ادا کیا جو قابل قدر اور قابل تحسین ہے جس کی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے خدا انھیں اس کا اجر دے ،آمین۔