انفلوینزا سے کرونا تک

February 22, 2021

کتنا عرصہ لگا ناامیدی کے پربت سے

پتھر ہٹاتے ہوئے

ایک بپھری ہوئی لہر کو رام کرتے ہوئے

ناخداؤں میں اب پیچھے کتنے بچے ہیں

روشنی اور اندھیرے کی تفریق میں

کتنے لوگوں نے آنکھیں گنوا دیں

کتنی صدیاں سفر میں گزاریں

مگر آج پھر اس جگہ ہیں جہاں سے ہمیں

اپنی ماؤں نے رخصت کیا تھا

اپنے سب سے بڑے خواب کو اپنی

آنکھوں کے آگے اجڑتے ہوئے

دیکھنے سے برا کچھ نہیں ہے

تیری قربت میں یا تجھ سے دوری پہ جتنی گزاری

تیری چوڑیوں کی قسم زندگی

دائروں کے سوا کچھ نہیں ہے

کہنیوں سے ہمیں اپنا منہ ڈھانپ کر

کھانسنے کو بڑوں نے کہا تھا

تو ہم ان پہ ہنستے تھے اور سوچتے تھے کہ

ان کو ٹشو پیپروں کی مہک سے الرجی ہے

لیکن ہمیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ان پہ وہ آفات ٹوٹی ہیں

جن کا ہمیں اک صدی بعد پھر سامنا ہے

وبا کے دنوں میں کسے ہوش رہتا ہے

کس ہاتھ کو چھوڑنا ہے کسے تھامنا ہے

اک ریاضی کے استاد نے

اپنے ہاتھوں میں پرکار لے کر

یہ دنیا نہیں دائرہ کھینچنا تھا

خیر جو بھی ہوا تم بھی پرکھوں کے نقش قدم پر چلو

اور اپنی حفاظت کرو

کچھ مہینے تمہیں اپنے تسمے نہیں باندھنے

اس سے آگے تو تم پہ ہے تم اپنی منزل پہ پہنچو

یا پھر راستوں میں رہو

اس سے پہلے کہ تم اپنے محبوب کو وینٹیلیٹر پہ دیکھو

گھروں میں رہو