کووِڈ 19 وبائی مرض کے دوران روزہ رکھنا

April 22, 2021

رمضان کریم کے مبارک مہینے کے دوران مسلمانوں پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب تقریباً دنیا بھر کے مسلمان کووِڈ-19وَبائی مرض کے دوران روزے رکھ رہے ہیں۔ ایک ایسی وَبا جو کروڑوں لوگوں کو متاثر اور لاکھوں لوگوں کو لقمہ اَجل بناچکی ہے، اس دوران روزے رکھنے کا معاملہ اور بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے، خصوصاً کمزور قوتِ مدافعت کے حامل افراد روزے رکھنے کے حوالے سے ممکنہ طور پر تذبذب کا شکار ہیں۔

اس سلسلے میں، برطانیہ سے جاری ہونے والے طبی جرنل ’’جرنل آف گلوبل ہیلتھ‘‘ نے گزشتہ سال کووِڈ-19کے دوران ماہِ رمضان کے حوالے سے اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں رواں سال مسلمانوں کو وَبائی مرض کے دوران روزے رکھنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ برطانیہ بھر میں روزے رکھنے کے باعث مسلمانوں میں کووِڈ-19 سے زیادہ اموات واقع ہوئی ہوں۔ رپورٹ کہتی ہے، ’’ہم اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ماہِ رمضان میں جو عبادات کرتے ہیں، اس کے باعث نہ تو ان کا کووِڈ-19سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور نہ ہی زیادہ اموات کا‘‘۔

محققین نے اس تحقیقی رپورٹ کیلئے، نمونے کے طور پر برطانیہ کی ان آبادیوں کا جائزہ لیا، جہاں مسلمانوں کی آبادی 20فی صد یا اس سے زائد ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ، ابتدائی خدشات کے برعکس، رمضان کریم کے دوران ان آبادیوں میں کووِڈ-19کے باعث اموات میں درحقیقت کمی دیکھی گئی۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ، ’’درحقیقت، اموات کی شرح میں کمی کا رجحان رمضان کے بعد بھی جاری رہا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خطرناک تاخیری اثرات بھی نہیں دیکھے گئے‘‘۔

یادرہے کہ، گزشتہ سال برطانیہ میں ماہِ رمضان لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے گزارا گیا تھا اور برطانیہ بھر میں دیگر سماجی تقریبات پر پابندی کے ساتھ ساتھ نماز اور تراویح کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد تھی۔ اس لیے ’’جرنل آف گلوبل ہیلتھ‘‘ کی رپورٹ کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

روزے کے صحت پر اثرات

ماہِ رمضان میں لوگ سحر و افطار (اور کچھ لوگ الگ سے رات کا کھانا بھی کھاتے ہیں) کے موقع پر زیادہ حراروں (ہائی کیلوریز) والی غذائیں کھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد موٹاپے اور معدے میں دائمی جلن جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ایسے حالات میں روزہ داروں میں سوزش پیدا کرنے والے خلیوں کا ارتکاز 2 سے 3 گنا بڑھ جاتا ہے اور متاثرہ افراد خودکار بیماری (آٹو اِمیون) جیسے گٹھیا کا مرض، سوزش کی بیماری جیسے انسولین کے خلاف مزاحمت، شحمی مادوں کے جم جانے کے باعث شریانوں کا نقص (Atherosclerosis)، مختلف اقسام کے کینسر کے باعث بافتوں کو نقصان اور دل کے امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

البتہ، روزے اور کھانے پینے کی روزمرہ اشیا کے انسانوں اور جانوروں پر کیے جانے والے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے، ناصرف صحت مند افراد بلکہ دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کی صحت کے کئی اشاریوں میں بہتری آجاتی ہے۔

مسلمان جہاں صبحِ صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور اس دوران نفس کی پاکیزگی کا خصوصی خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ کوئی بھی چیز کھانے اور پینے سے دور رہتے ہیں، اسی طرح دیگر لوگ بھی اپنے مذہبی فرائض یا صحت کے پیشِ نظر مختلف طرح اور مختلف دورانیہ کے روزے رکھتے ہیں۔

ان تمام اقسام کے روزوں پر کی جانے والی تحقیق کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سے عمر بڑھتی ہے، انسولین کے لیے حساسیت میں اضافہ ہوتا ہے، تکسیدی تناؤ اور سوزش میں کمی آتی ہے، جب کہ کینسر اور دل کے امراض سے اموات میں بھی کمی آتی ہے۔

مزید برآں، تحقیق کی روشنی میں روزے کے مزید درج ذیل فوائد بتائے گئے ہیں:

٭ جن افراد کا وزن بڑھا ہوا ہو یا جو موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان کے وزن میں کمی آتی ہے۔

٭ ٹائپ ٹو ذیابطیس کا شکار موٹاپے کے حامل افراد میں گلوکوز حیاتیاتی توازن پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی چربی اور HbA1cمیں کمی آجاتی ہے۔

٭ دل کے امراض میں بقاء کی شرح بڑھ جاتی ہےاور دل کے امراض سے جُڑے خدشات کم ہوجاتے ہیں۔

٭ روزہ، انسولین کے خلاف مزاحمت کو کم اور زیادہ وزن اور موٹاپا کے حامل افراد میں توانائی کی منتقلی پر حدبندی عائد کرتا ہے، جس سے موٹاپا سے جُڑے کینسر کے خدشات کم ہوسکتے ہیں۔

٭ بڑھتی عمر سے جُڑے عصبوں (Nerves)کو ہونے والے نقصان کے نتیجے میںپیدا ہونے والی بیماریوں (الزائمر اور اسٹروک) سے تحفظ مل سکتا ہے۔

٭ روزہ چربی کی مقدار، ٹوٹل کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی مقدار میں کمی لاتا ہے، جس سے بلڈپریشر میں بھی اتنی ہی کمی آتی ہے۔

انتباہ

عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کی روشنی میں روزہ داروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو صاف رکھیں اور ضرورت پڑنے پر فوری طور پر صابن سے 20سیکنڈ تک بہتے پانی سے ہاتھ دھوئیں، دیگر افراد سے کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں، ہجوم میں جانے سے گریز کریں اور اگر پبلک مقامات پر جانا ناگزیر ہو تو ماسک ضرور پہنیں۔ اگر طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں اور ڈاکٹر کی تجویز کی روشنی میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں۔