ایک ہی کہانی

July 21, 2021

دنیا کا ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسکی زندگی منفرد ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب پہلے آدم کو زمین پہ اتارا گیا تو اس کے بعد ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے ۔ انسان کودنیا میں ہزار قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیٹا بیمار ہے، بیٹی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتی جبکہ بھائیوں کی اولادیں ہر سال پوزیشن لیتی ہیں۔ ایک عورت کا شوہر کام نہیں کرتا جبکہ اس کی بہن کا شوہر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہے۔ ایک شخص بھرپور محنت کرنے کے بعد بھی بمشکل اتنا کماپاتا ہے کہ اپنے اخراجات پورے کر سکے جبکہ اس کے دوست کو ورثے میں سونے کی تین دکانیں ملی ہیں۔ میرے دوست رشتے دار اکثر میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ میری اٹکتی ہوئی زبان، لرزتے ہوئے ہاتھوں، کالی رنگت، چھوٹے قد اور کم تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ میرے سامنے جان بوجھ کر انگریزی میں باتیں کرتے اور بھرپور قہقہے لگاتے ہیں۔ میرا اکلوتا بیٹا کچھ بھی نہیں کھاتا۔ وہ سوکھ کر تنکا بن چکا ہے جبکہ اسکے کزن کھیلتے کودتے اور شور شرابا کرتے ہیں۔میرا بیٹا اکثر اداس اور خاموش بیٹھا رہتاہے۔میری زندگی کی سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کو دوسرے بچوں کی طرح کھاتے پیتے اور اچھلتے کودتے دیکھوں۔ میرے والد میرے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ مجھ پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک خاتون کی شادی کو کئی سال ہو چکے ہیں، اسکی کوئی اولاد نہیں۔ جب اسکی بھابیاں اپنی اولادوں سے لاڈ پیار کرتی ہیں، انہیں اٹھاتی ہیں، دل سے لگاتی ہیں، انکے چہروں پر بوسے دیتی ہیںتو اسکے سینے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ ایک لڑکی ہے، جس کی سب سہیلیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ اس کی عمر گزرتی جا رہی ہے۔ ہنوز کسی اچھے رشتے کا نام و نشان تک نہیں۔ایک لڑکی، جب اپنی سہیلیوں کو دیکھتی ہے، ان کے شوہروں کو دیکھتی ہے اور اس کے بعد جب وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے تو وہ اداس ہو جاتی ہے۔ ان کے شوہر اپنی بیویوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ادھر اس کا شوہر کبھی سیدھے منہ بات کرنا گوارا نہیں کرتا۔ ایک شوہر یہ سوچتاہے کہ میرے بیوی بچوں نے تو مجھے وزن اٹھانے والا جانور سمجھ لیا ہے۔ایک بیوی یہ سوچتی ہے کہ میرے شوہر کے سب بھائیوں نے خوب جائیدادیں بنا لی ہیں۔بڑی بڑی گاڑیاں خرید لی ہیں جب کہ میرا شوہر تو درویشوں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔اس سب کے علاوہ بھی زندگی میں آپ جتنی مرضی سچویشنز سوچ لیں۔ اپنے بچے کے نرم و نازک لمس سے پیدا ہونے والی مسرت، اس کے منہ سے نکلنے والی قلقاری،ایک حسین ترین چہرے کو دیکھ کر دل میں اٹھنے والی حسر ت۔ یہی سب کچھ ہے، جو انسانوں کے ساتھ بار بار پیش آرہا ہے۔ یہی کہانی ہے، جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟

میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ آپ کی پانچ حسوںکوحاصل ہونے والے ڈیٹا پر دماغ کا ردّعمل ہے۔ دماغ جب ان میں سے کوئی بھی چیز دیکھتا، سنتا، چکھتا، سونگھتا یا محسوس کرتاہے تو ہمارے اس دماغ میں صورتِ حال کے مطابق مخصوص کیمیکلز کا اخراج ہوتاہے۔ان کیمیکلز کے اخراج کے ساتھ ہی وہ اداس ہو جاتا ہے، غمگین ہو جاتا ہے، غصے میں آجاتا ہے، خوف محسوس کرتاہے، لالچ میں آجاتاہے یا حسد محسوس کرتاہے۔ اس کے بعد دماغ ان کیمیکلز کے زیراثر پیدا ہونے والی کیفیت کے تحت اپنا ردّعمل دیتا ہے، اگر اس کا دوست پلاٹ خرید رہا ہو تو وہ حسد محسوس کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں بھی پلاٹ خرید سکوں۔ اگر اس کا بھائی عالمگیر شہرت رکھنے والا باکسر ہے تو وہ کوشش کرتاہے کہ میں بھی اتنا بڑا باکسر بن سکوں۔ اگر ایک لڑکی کی سہیلی خوبصورت اور امیر شخص سے شادی کرتی ہے توانہی کیمیکلز کے زیر اثر وہ خواہش کرتی ہے کہ میںاس سے بھی زیادہ امیر اور خوبصورت مرد سے شادی کروں۔آپ یقین کریں کہ اگر یہ کیمیکلز خارج نہ ہوتے تو ایک انسان کے سامنے دوسرا کامیابی کی جتنی مرضی سیڑھیاں چڑھ جاتا، اسے ذرّہ برابر پروا بھی نہ ہوتی۔ سب انسان صوفی اور درویش بنے پھر رہے ہوتے۔ آخر یہ کیمیکلز کیوں خارج ہوتے ہیں؟ اسلئے کہ انسان کو آزمایا جائے۔ اسے حسد، خوف، کمتری اوردوسرے جذبوں سے گزار کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ کیا عمل کرتاہے۔ حسد کا پیدا ہونا تو فطری ہے لیکن کیا اسکے بعد وہ خود کو حسد کے سپرد کردیتاہے یا پھر اس کی راہ میں مزاحم ہوتاہے؟ اگر تو وہ اس کی مزاحمت کرتاہے اور کامیابی حاصل کرنیوالے اپنے بھائی یا دوست کے پا س جا کر اسے مبارک باد دیتاہے تو پھر یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے۔اگر انسان خود کو اس حسد کے سپرد کر دے اور اس تاک میں رہے کہ شہرت، دولت اور کامیابی حاصل کرنے والے اپنے بھائی یا دوست کو نیچا دکھانا ہےتو پھر یہ کیفیت مستقل ہو جاتی ہے۔ پھر یہ حسد، انتقام، لالچ اور دوسرے منفی جذبے اس کی زندگی پرحکمرانی کرتے ہیں۔ اس کی پوری زندگی ایک دلدل میں گزر جاتی ہے۔ اگر یہ کیمیکلزبہت کم خارج ہونا شروع ہو جائیں تو انسان Depressed ہوجاتاہے۔ اگر یہ بہت زیادہ خارج ہونا شروع ہو جائیں‘ تو انسان Bipolar ہو جاتا ہے۔

علم ایک ایسی چیز ہے، جو اس باب میں بھی غیر معمولی طور پرانسان کی مدد کر سکتی ہےجو انسان علم رکھتاہے۔اسے معلوم ہے کہ ہم سب ایک امتحان گاہ میں ضرور بیٹھے ہیںلیکن ساتھ بیٹھے ہر شخص کا پرچہ بالکل مختلف ہے۔ اس لئے مجھے اس کی نقالی کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں۔مجھے تو اپنی خوبیوں کو نکھارکر ان کی بنیاد پر زندگی گزارنی ہے۔