مہنگائی کی شرح میں 12 اعشاریہ 66 فیصد اضافے کو منی بجٹ قرار دے کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے عوام کو بچانے کے لئے باہر نکلنے کا عندیہ دیا ہے اور جشن عید میلادالنبی کے جلوسوں کے بعد ملک بھر میں احتجاجی دھرنے دینے اور ریلیاں منعقد کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے مگر کیسے ؟ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ" پنجاب اٹھے گا تو انقلاب آئے گا" پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے زیادہ ہے، پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو تین برس سے حلیفوں کے بل بوتے پر چل رہی ہے۔
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی حکومت کو پہلے دن سے ہی عدم اعتماد کا خطرہ لاحق ہے مگر پی ڈی ایم (ن) لیگ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے آمادہ نہ کر سکی، تحریک عدم اعتماد نہ لانے پر ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور اور اے این پی کی قیادت ناراض ہو کر پی ڈی ایم چھوڑ گئی، پنجاب میں پی ٹی آئی کے اقتدار کا تسلسل قائم رکھنے والے حلیف پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ کیوں چھوڑیں گے ؟
یہ بھی ایک سوال ہے تاہم سب سے بڑا جواب تو یہ ہے کہ جب تک مقتدر حلقے عمران خان کے ساتھ ہیں، حکومت کو کچھ نہیں ہوگا۔ "وزیراعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں راوی چین لکھ رہا ہے،"حکومت کے حامی آج بھی برملا کرتے ہیں کہ کہ عمران خان کو ہٹانے کے بعد ایسٹیلشمنٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ نے فرمابردار بچوں کی طرح ساتھ دیا، قانون سازی ہوئی اور دونوں بڑی جماعتوں نے توثیق کے حق میں ووٹ دئیے، حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مہنگائی آئی تو ضرور مگر آپ صرف مہنگائی کو دیکھ رہے ہیں۔
عالمی مارکیٹ سے نہیں جھوڑ رہے ،عالمی سطح پر سپلائی چین ٹوٹ گئی ہے، بیروزگاری میں کسی حد تک اضافہ ہوا تھا تاہم اب سے روزگار میں اضافہ ہوگیا ہے، 31 دسمبر تک پنجاب میں ہر شہری کو صحت کارڈ فراہم کردیا جائے گا، مہنگائی کے متاثرین کا بھی ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے،ایک کروڑ بیس لاکھ شہریوں کو احساس پروگرام کے زریعے ریلیف دیا جا رہا ہے، مہنگائی کے ماروں کو بھی سبسڈی دی جائے گی۔
سرکاری اور نجی ملازمین کا تمام ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے، ملکی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کے لئے مذاکرات کر رہی ہے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے , آئی ایم ایف کے حکم کی روشنی میں تین سو چونتیس ارب روپے کے سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں ، اعداد و شمار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ 2018 میں بننے والی عمران خان کی حکومت بجلی کی قیمت میں اب تک 52 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔
حکومت کی خواہش کے برعکس عدالت عظمی نے بلدیاتی اداروں کو کھولنے اور منتخب قیادت کو چارج سنبھلنے کی ہدایت کر رکھی ہے،سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن عملی سیاست کے زریعے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے،اپوزیشن ارکان اپنی آدھی تنخواہ قومی خزانے میں واپس کرنے کا اعلان کر کے حکومتی ارکان کو بھی آدھی تنخواہ واپس قومی خزانے میں جمع کروانے پر مجبور کر سکتے ہیں، آدھی تنخواہ واپس کرنے سے حکومتی ارکان کو پتہ چلے گا کہ مہنگائی کیا ہوتی ہےاور عام شہری اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سرکاری اور اپوزیشن کے تام جھام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں گیلری سے کھیل رہے ہیں ،قوم کی توجہ سنجیدہ معاملات پر مرتکز کرنے کی بجائے روزانہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے جسے میرے محلے میں ریڑھی والا ٹرک کی بتی سے تشبیہہ دیتا ہے۔،پی ٹی آئی حکومت کے مخالفین برملا کہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔
پٹرول پٹرول دس روپے انچاس پیسے اضافے کے ساتھ137 روپے اناسی پیسے تک پہنچ گیا ہے ،ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 12روپے سے44 پیسے اضافے کے ساتھ 134روپے اڑتالیس پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے لائٹ ڈیزل کی قیمت میں آٹھ روپے 84 پیسے اضافے سے قیمت 108 روپے 35 پیسے اور مٹی کے تیل میں دس روپے پچاس پیسے اضافے سے قیمت 110 روپے 24 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ پٹرولیم اور بجلی سمیت 70 سے زائد اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے، بے بس عوام کا نا صرف جینا محال ہوگیا ہے بلکہ مہنگائی نے بے بس عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔پی ڈی ایم اور پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے،پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ عمران مشکل پچ پر نہیں کھیل سکتا۔
سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی کے خلاف کھل کر کھیلنے کے عزم کا اظہار کیا اور حکومت کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا،مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اداروں سے ہماری دشمنی نہیں گلہ ہے مہنگائی سےخود کشیاں شروع ہوئیں تو پارلیمنٹ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟
پی ڈی ایم نے ایک بار پھر اجتمائی استعفوں کا اسلام آباد دھرنا کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر عمل کیسے ہو گا، (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے بیانے کو عوام پسند کرتے ہیں مگر مریم نواز، پرویز رشید، جاوید لطیف اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ ٹارچر برداشت کرنے والوں کی کمی ہے، نواز شریف نے ( ن) لیگ کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوامی جماعت تو بنا دیا ہے مگر ابھی تک جارحانہ احتجاج اس جماعت کے کارکنوں کی عادت نہیں بن سکا۔
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد معاملات بہتر نہیں ہو سکے، پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک ابھی افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں ، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی خطے کی صورتحال سے میچ ر کھنے کی متقاضی ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈنینس سے کام چلانا غیر جمہوری رویہ ہے آپ کو اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہیے وگرنہ پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت باقی نہیں بچے گی، ماضی میں اقتدار میں رہنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں ہی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات بھگت رہے ہیں دونوں جماعتوں کی قیادت کا انداز تکلم جارحانہ ہے اور ان کی گفتگو سے یہ تاثر نکلتا ہے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔