عدیل احمد، میر پور خاص
وادٔی سندھ ایسی نادر و دل کش ہے، کہ اس کا چپّہ چپّہ اہمیت کا حامل اور اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ گھارو سے آگے’ ’گجو‘‘ کا ایک چھوٹا سا شہر آتا ہے جس کی وسعت مرکزی شاہراہ کے دونوں اطراف میں آدھے کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کے مغرب میں کینجھر سے میٹھے پانی کی نہریں نکلتی ہیں ۔
اگر مغرب کی جانب سے آ رہے ہیں، تو ان نہروں کے پْل کو کراس کرکے، نہروں کے جنوب میں پکّے راستے پر جو مغرب کی طرف جا رہا ہے اُس پر چلے جائیں ،تو دو ڈھائی کلومیٹر چلنے کے بعد راستہ جنوب کی طرف مڑ جاتا ہے ، جہاں سامنے ایک مختصر سے ٹیلے پر ’’ابوتراب‘‘ کی درگاہ ہے، جو پیلو کے درختوں کی چھاوں میں گھری ہوئی ہے۔
زائرین اور معتقدین، ان درختوں، درگاہ اور وہاں بنی ہوئی کوٹھڑیوں کی ٹھنڈی چھاوں اور سکون کی غنودگی میں زندگی کے اچھے پَلوں کے مزے لیتے ہیں۔ درگاہ کے اطراف میں پھیلا وہ قدیم قبرستان بھی ہے ،جو اپنی قدامت کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ چوکنڈی طرز کا ایک بہت بڑا قدیم قبرستان ہے ،جہاں 200 سے زائد قدیم قبریں ہیں جن پر سنگ تراشی کا نہایت ہی نازک، عمدہ اور پیچیدہ کام کیا گیاہے، کچھ اس طرز کی قبریں بھی ہیں جو چوکنڈی جیسے اور قبرستانوں میں بھی نہیں ہیں۔
اس قبرستان کی زمین انتہائی سیم زدہ ہے اس لیے چونا پتھر کی بنی ہوئی یہ قبریں خستگی کا شکار ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ درگاہ شیخ حاجی ابو تراب کی ہے، جو خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں یہاں سندھ کے عباسی گورنر تھے اور مغربی سندھ کے ’’ساقورہ‘‘ (میرپور ساکرہ) کے قلعے پر قابض تھے۔ شیخ تراب کے متعلق گزیٹیئر آف پروونس آف سندھ میں لکھا ہے کہ’’یہ بڑے شیخ جن کا نام ابوتراب تھا، انہوں نے بکھر کے قلعے کو فتح کیا اور بہادری کے کئی کام کیے۔‘‘مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’’حاجی ابوتراب بصرہ سے ایک مچھلی پر سوار ہوکر آئے تھے۔
اب اس مچھلی کا صرف کانٹا بچا ہے، جو وقت کے ساتھ خستہ ہوکر ٹوٹ گیا ہے۔سنا ہے یہ کانٹا پیٹ کے امراض میں مبتلا افراد کو شفا دیتا ہے۔ لوگ بڑھے ہوئے پیٹ، پیٹ کی تکالیف اور کھجلی دور کرنے کے لیے یہاں دور دور سے آتے ہیں ، جیسے ہی مچھلی کا کانٹا پیٹ پر 3 بار رکھا جاتا ہے، افاقہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔‘‘ تپتی دوپہر میں عورتیں یہاں گیت بھی گاتی ہیں۔ مقامی لوک گیت ایک مخصوص لَے سے گائے جاتے ہیں،اگران کو سناجائے، تو انہیں گانے کے لیے کسی سازکی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اس کےبغیر بھی کانوں اور دل و دماغ کو بہت اچھے لگتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ان لوک گیتوں کو عورتیں ہی تخلیق کرتی ہیں اور یہ خوشی کے موقعے پر ہی گائے جاتے ہیں۔ بے اولاد جوڑے یہاں منت ماننے بھی آتے ہیں۔اولاد ہونے کے بعد، بچے کے سر پر آئے ہوئے ابتدائی بال درگاہ کے آنگن میں کاٹے جاتے اور ایک کپڑے کی بنی ہوئی خوب صورت تھیلی میں ڈال کر اس کپڑے کی تھیلی کو، پیلو کے درخت میں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اپنے ساتھ لائے ہوئے چھوٹے سے جھولنے جن کو مقامی بڑھئی سے بنوایا جاتا ہے،درگاہ کے آنگن میں رکھ دیتے ہیں۔ درگاہ کی تعمیر سمہ حاکم ’’جام جونو‘‘ نے کروائی تھی۔
یہ وہی جام جونو تھا، جس نے دہلی کی شاہی احکامات اور پالیسیوں کو سندھ میں لاگو کروانے اور اْن پر عمل کروانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی سلطنت کی درباری زبان فارسی تھی۔ ’’جام جونو‘ ‘نے پہلی بار اس زبان کو سندھ کے دربار، تعلیم و تدریس میں لاگو کیا۔ یہ مقبرہ اپنی بناوٹ اور تزئین کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے اور اپنے اطراف میں اتنا قدیم قبرستان ہونے کا اعزاز بھی اس درگاہ کے حصے میں ہی آیا ہے۔کہتے ہیں کہ یہ بزرگ زندگی کے آخری برسوں میں اپنے مریدوں کے ساتھ اس پہاڑی پر آکر رہے اور بہت بڑی عمر پائی۔یہ کہانی آپ کو ایک عام سی کہانی لگ سکتی ہے، مگر یہ اپنے اندر صدیوں کی ایک قدیم تاریخی حقیقت چھپائے ہوئے ہے۔