تفہیم المسائل
سوال: کیا طلاقِ بائن کے دلائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں یا صرف طلاقِ ثلاثہ ورجعی کا ذکر ہے ۔(مدثر حسین ،امریکا )
جواب: قرآن کریم میں عائلی زندگی کے بارے میں احکامات ، سورۂ بقرہ ، سورۂ نساء اور سورۂ طلاق میں قدرے تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ،بعض مُتفرق مقامات پر اجمالی طور پر بیان کیے گئے ہیں ۔ طلاق کے واضح ترین احکامات سورۂ بقرہ میں موجودہیں ، اسی میں خلع کا بیان بھی ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ:’’پس (اے مسلمانو!) اگر تمہیں خوف ہوکہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کی حدودکو قائم نہ رکھ سکیں گے ،تو عورت نے(رشتۂ نکاح سے نکلنے کے لیے) جو بدل خلع دیاہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، (البقرہ:229)‘‘۔
حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے خُلع کو طلاقِ بائن قراردیا،(سُنن دارقطنی :4025)‘‘۔
نکاح کے بعد جس بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو یا ایسی خَلوت نہ کی ہو ، جس میں مباشرت سے کوئی چیز نہ ہو اور اسے ایک طلاق دیدی جائے ،تویہ طلاق بائن ہوتی ہے اور ایسی مُطلقہ پر قرآن کریم کی رو سے عدت بھی واجب نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ترجمہ:’’اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو،پھر ہاتھ لگانے سے پہلے تم اُنھیں طلاق دے دو، تو تمہارے لیے ان پر کچھ عدت نہیں،جسے تم شمار کرو، (الاحزاب: 49 ) ‘‘۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس (بائن کو) دوسری طلاق لاحق نہیں ہوگی ، پس اگر کسی شخص نے اپنی غیر مدخولہ زوجہ جس سے اُس نے خَلوتِ صحیحہ نہ کی ہو ، کہا:تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے ،توایک ہی طلاق واقع ہوگی کیونکہ پہلی طلاق سے وہ بائن ہوگئی اور اپنے شوہر کے لیے اجنبیہ ہو گئی، لہٰذا اسے دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ، (اَلْفِقْہُ الاِسْلَامِی وَأَدِلّتُہٗ ، جلد9،ص:6889)‘‘۔نیزوہ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مباشرت (دخولِ حقیقی )سے قبل اگر طلاق دی یا صرف خَلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق دی ، پہلی صورت میں طلاقِ بائن واقع ہوگی،تونہ عدت واجب ہوگی اور نہ رجوع کرنا ممکن ہوگا ،اس کی دلیل یہ آیت ہے : ترجمہ:’’اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو،پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو،توتمہارے لیے ان پر کچھ عدت نہیں، جسے تم شمار کرو، (الاحزاب: 49 ) ‘‘،پس جب اُس پر عدت واجب نہیں ہے ،تو رجوع کرنا بھی ممکن نہیں ، پس اس صورت میں طلاق بائن واقع ہوگی نہ کہ رجعی ،(اَلْفِقْہُ الاِسْلَامِی وَأَدِلّتُہٗ ، جلد9،ص:6958)‘‘۔
الغرض قرآن وحدیث میں طلاقِ بائن کا ذکرمندرجہ بالا دومقامات پر موجود ہے، اس کی تفصیل یہ ہے :
(۱) مالی بدلِ خلع کے عوض کوطلاقِ بائن قرار دیاگیا ہے، (۲) غیر مدخولہ بہا کوایک طلاق دی جائے یا مُتفرق طورپر تین طلاقیں دی جائیں ، جیسے :’’أَنْتِ طَالِقٌ،أَنْتِ طَالِقٌ، أَنْتِ طَالِقٌ‘‘کہا،تو پہلی طلاق کے ساتھ عورت بائن ہوجائے گی اور دوسری دوطلاقیں لغو ہوجائیں گی ۔
ہرجزوی مسئلے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ قرآن وحدیث میں بعینہٖ صریح حکم موجود ہو ، اَئمۂ کرام اور مجتہدین عظام نے جومسائل بیان کیے ہیں، وہ قرآن وحدیث سے ہی اَخذکیے گئے ہیں، اصولِ فقہ میں استنباط واستخراج کے اصول وضع کردیے گئے ہیں، ورنہ قرآن کریم میں آیاتِ مُحکمات اور آیاتُ الاحکام کی تعداد تقریباً پانچ سو بتائی گئی ہے ۔