بانسری، موسیقی کے آلات میں سے وہ انسٹرومنٹ ہے، جو گیت کی دُھن میں مٹھاس ،چاشنی اور نغمگی سمو کر اس کی دل کشی کو دو چند کرنے کا موجب بنتی ہے۔ فلمی شعراء نے اس آلے کو کبھی بانسری ،کبھی بنسی اور کبھی ونجلی کے نام سے موضوع سخن چُنا اور یادگار و شاہ کار گیت تخلیق کیے۔ ایسے فلمی گیتوں کی تعداد کم نہیں ہے کہ جن میں بانسری کی تان نمایاں رہی، لیکن ہم ایسی فلموں سے منتخب کیے گئے گیتوں کا ذکر کریں گے، جن کی شاعری کا تانابانا بھی بانسری ،بنسی یا و نجلی جیسے الفاظ کے گرد بُنا گیا۔
ایسے گیتوں میں سب سے پہلے جو گیت ہماری یادوں کے البم سے ابھر رہا ہے۔ اس کے بول ہیں ’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار، جسے گایا تھا، مالا بیگم نے، اس کی دل کش دُھن بنائی تھی،لال محمد اقبال نے، اس گیت کےخالق ،دُکھی پریم نگری تھے۔ یہ یاد گار گیت سلور اسکرین کی حسین و جمیل فن کارہ ’’زبیا‘‘ پرپکچرائز ہوا تھا۔ اورفلم کا نام تھا ،جاگ اٹھا انسان۔ 1966، فلم کا مذکورہ بالا گیت اپنے وقت کانہایت پاپولر نغمہ تھا۔
ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ’’ بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا ۔‘‘ اس گیت کی پیکچرائزشن میں بانسری بجاتے ہوئے ہماری لیجنڈ شخصیت طارق عزیز کو دکھایا گیا تھا، جو اس فلم میں زمرد کے ہیرو تھے۔ تنویر نقوی نے یہ بانسری یا بنسی مارکہ گیت تحریر کیا تھا۔ اور اس کی دل کش دھن مرتب کی تھی ایم اشرف نے ۔
ہر چند کہ طارق عزیز اور زمرد بہ طور ہیرو ہیروئن فلم بینوں کے لیے زیادہ پُرکشش نہ تھے۔ لیکن پھر بھی دل چسپ کہانی اور جان دار موسیقی کی بدولت فلم نے سلور جوبلی کا اعزاز پا لیا تھا۔
1970میں پنجابی سینما کا فخر ’’ہیر رانجھا‘‘ تخلیق کی گئی اور اس نے خُوب دُھوم مچائی۔ وارث شاہ کی تخلیق ’’رانجھا‘‘ ونجلی یعنی بانسری بجانے میں یکتا ممتاز تھا۔ فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کے دو عدد نغمات حزیں قادری نے رانجھے کی ونجلی اور اس کی میٹھی تانوں پر رقم کیے، جن میں ایک گیت ملکہ ترنم نورجہاں نے گایا تھا۔ اس کے بول تھے ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے ‘‘ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں بانسری(Based) جتنے گیت بنے ہیں، ان میں یہ گیت سب سے میٹھا، سب سے ممتاز اور سب سے زیادہ مقبول و پسندیدہ ٹھہرا۔
خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس ،دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔ اس کے بول تھے۔ او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی او پیار … ونجلی والڑیا ،نی اتے گل بھولیں نا … اس گیت میں نور جہاں کے ساتھ گلوکارمُنیر حسین کی خُوب صورت آواز شامل تھی۔ مذکورہ بالا دونوں گیتوں میں رانجھے یعنی اعجاز کو بانسری کی دل کش تانیں چھیڑتے ہوئے اسکرین پر دکھایا گیا۔
ہیر رانجھا نےکراچی میں سلور جوبلی اور لاہور میں شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ 1973 کی ریلیز ہدایت کار محسن شیرازی کی میوزیکل مووی ’’بادل اور بجلی‘‘ کے لیے صہبا اختر نے ’’بنسی گیت‘‘ تخلیق کیا،جس کے بول تھے۔ ’’بنسی بجانے والے، نیندیں اڑانے والے۔ کاہے چھوڑ چلا تو یہ گاؤں رے، تو ے پھر نہ ملے گی یہ چھائوں رے۔‘‘ اس گیت میں بھی بانسری کا استعمال بہت خُوب صورت انداز میں کیا گیا۔ گیت کےموسیقار تھے، سہیل رعنا، میڈم نور جہاں نے اس گیت کو خُوب رچائو سے گایا۔ اسکرین پر اس گیت پر ’’شبنم‘‘ نے اداکاری کی، جب کہ بانسری بجاتے ہوئے سپر اسٹار ندیم نظر آئے، یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ موسیقار سہیل رعنا، ان موسیقاروں میں سے ایک تھے کہ جنہوں نے میڈم نور جہاں پر زیادہ انحصار کیے بغیر ہی اپنا پورا کیئریئر گزار دیا۔
ان کا میڈم کے ساتھ صرف 2عدد فلموں تک ہی محدود رہا، جنہیں پھر چاند نکلے گا اور زیر تبصرہ فلم شامل ہے ہدایت کار سنگیتا کی ’’عشق عشق‘‘ 1977 ہیر رانجھا کاماڈرن ایڈیشن تھی، جس میں ندیم عہد جدید کے ’’رانجھا‘‘ تھے اورکویتا ’’ہیر‘‘ لیکن وارث شاہ کے کردار رانجھا کی طرف ’’عشق عشق‘‘ کے ماڈرن رانجھا کے ہاتھوں میں بھی بانسری موجود تھی اور بانسریا لفظ پر مرکوز شاعری کا حامل گیت بھی فلم کا حصہ تھا، جس کے بول تھے ’’پیار کی پیاسی بانسریا نے گیت ملن کا گایا ہو میرا پگلا من لہرایا‘‘ ۔
گلوکارہ مہناز کی سُریلی گائیکی سے آراستہ اس گیت کے موسیقار کمال احمد تھے اور شاعر تھے تسلیم فاضلی، فلوٹ یا بانسری کا استعمال نہ صرف اس گیت میں بلکہ عشق عشق فلم کے ہر دوسرے گیت میں نہایت خُوب صورتی سےکیا گیا تھا۔ اور بانسری کی تان سے سجے وہ تمام گیت زبان زد خاص و عام بھی ہوئے۔ ہدایت کار اسلم ڈار کی فل کامیڈی مووی ’’بڑے میاں دیوانے‘‘ ایک نغمہ بار فلم تھی، جس میں متعدد خُوب صورت دھنوں سے آراستہ گیت شامل تھے، جن میں بانسری کی تکرار پر مبنی ایک دلکش گیت جس میں بانسری کا استعمال بکثرت کیا گیا تھا۔
فلم کا حصہ بنا۔ مہناز نے یہ سُریلا اور میٹھا گیت گایا تھا اور کمال احمد اس کے کمپوزرتھے۔ تسلیم فاضلی کے لکھےہوئے اس گیت کے بول تھے ’’اور میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسیر بجاکے میرے ہوش بھلائے جا‘‘۔ گیت فلم کی مرکزی ہیروئین حسین ور اسٹائل فن کارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا، جب کہ اسکرین پر بانسری بجاتے ہوئے ندیم نظر آئے۔ بانسری کی تانوں سے سجا ایک دل کش اور مقبول گیت تھا۔ بڑے میاں دیوانے 1977کی عیدالاضحی کے موقع پر نمائش پذیر ہوئی تھی۔
1981 میں ریلیز ہونے والی منصور سید کی میوزیکل رومانی فلم ’’محبت اور مجبوری‘‘ کے یوں تو متعدد گیتوں کو قبولیت عامہ ملی، جن میں ایک عدد گیت ’’بانسری‘‘ کےحوالے سے تھا۔ اس گیت کے بول تھے ’’تو بانسری بجائے جا، میں پائیلیا چھنکائوں گی‘‘ گیت کے موسیقار کمال احمد تھے اور یہ گیت لکھا تھا سلیم زبیری نے، جس کی پکچرائزیشن ورسٹائل بابرہ شریف پر ہوئی تھی، جب کہ پردہ سمیں پر بانسری بجاتے ہوئے غلام محی الدین کو دکھایا گیا تھا۔