• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُمِ اویس

ننھی گلہری گلو جنگل کے اس حصے میں رہتی تھی ،جہاں درخت خوب گھنے اور ہرے بھرے تھے۔ ایک دن اس کی ماما نے کہا ,”گلو ! میں کھانے کی تلاش میں جا رہی ہوں ، تمہارے بابا دوسرے جنگل گئے ہیں ، میری غیر موجودگی میں گھر سے باہر نہ جانا، کیونکہ آج موسم کے آثار ٹھیک نہیں، بارش اور تیز ہوا چلنے کا امکان ہے۔“

گلو نے اس وقت تو سر ہلا دیا لیکن ماما کے چلے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد اسے اپنی دوست منکی کا خیال آیا، جو اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر رہتی تھی۔ منکی کا گھر جنگل کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے ٹیلے کے دامن میں بنی سرنگ میں تھا۔

آسمان پر بادل سورج سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے، تھوڑی ہی دیر میں سورج چاچا ہار گئے اور اپنامنہ چھپا لیا۔ ہر طرف سیاہ بادل چھا گئے، ابھی گلو آدھے راستے میں تھی کہ اچانک بجلی چمکی ،اچھلتی کودتی ، گلو ڈرگئ اور تیزی سے بھاگنے لگی ۔ سامنے سے خرگوش میاں اپنے گھر کی طرف جاتے دکھائی دئیے۔ گلو کو بھاگتے دیکھ کر انہوں نے زور سے کہا,”ادھر کہاں جا رہی ہو ؟ چلو واپس اپنے گھر چلی جاؤ ،تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس موسم میں گھر سے نکلو؟ ‘‘

جونہی بجلی تیزی سے چمکی ، گلو نے گھبراہٹ میں سامنے دیکھے بغیر چھلانگ لگائی اور اونچے درخت سے اس کا سر ٹکراگیا۔ آہ ! درد کی ایک تیز لہر اُٹھی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا جس پر ایک بڑا سا گومڑ بن گیا تھا اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھی۔ خرگوش میاں بڑبڑائے ، ”اندھی ہو ، نظر نہیں آتا؟“

گلو تیزی سے دوسری طرف مڑی تو کانٹے دار جھاڑیوں میں پاؤں جا پڑا، اس کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور وہ لنگڑاتی ہوئی راستے کے درمیان میں چلنے لگی ،بالآخر گرتی پڑتی وہ گھر پہنچ ہی گئی اسے چوٹ لگی تھی اور درد بھی ہو رہا تھا، گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ رونے لگی اور روتے روتے سو گئی۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو بارش تھم گئی تھی، آسمان صاف ہو چکا تھا۔اس نے باہر جھانک کر دیکھا تو ماما واپس آتی دکھائی دیں۔ اسے ایک بار پھر رونا آگیا، جونہی اس کی ماما اندر داخل ہوئیں وہ دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔ ماما نے اسے مٹی اور کیچڑ میں لت پت دیکھا تو پریشان ہوگئیں ، اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو گومڑ پر جا لگا ، گلو زور سے رونے لگی اور روتے روتے ماما کو سارا قصہ سنا دیا۔ ماما نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا اسے تسلی دی ، اس کا منہ ہاتھ دھلا کر صاف کیا دوا لگائی۔ صبح تک گلو ٹھیک ہو چکی تھی اور سب کچھ بھول بھال کر پھر سے اچھل کود کر رہی تھی۔

چند دنوں کے بعدگلو ماما کی غیر موجودگی میں پھر گھر سے باہرنکل گئی، اس کا دل چاہا کہ وہ تالاب کے کنارے لگے اخروٹ کے درخت پر جا کر اخروٹ کھائے۔ وہ اچھلتی کودتی ، چھلانگیں لگاتی، دُم لہراتی ، وہ جنگل کے دوسرے کنارے بنے تالاب تک پہنچ گئی اور اخروٹ کے درخت سے نرم نرم اخروٹ ڈھونڈ کر کھانے لگی۔ 

واپسی پر اس نے دو اخروٹ ہاتھ میں پکڑ لیے، وہ انہیں چھپانا چاہتی تھی تاکہ کچھ دن بعد نکال کر کھا لے۔ اکا دکا بادل اکھٹے ہو رہے تھے ، اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو سورج میاں منہ چھپاتے دکھائی دئیے۔ ہائے الله! آج پھر بارش ہوگی، مجھے فورا گھر چلے جانا چاہیے۔ اس نے سوچا، درخت سے نیچے اتری اور اپنے گھر کی طرف دوڑنے لگی، راستے میں کھوہ نظر آئی ، گلو نے جلدی جلدی اخروٹ اس میں چھپا دئیے اور چھلانگیں لگاتی آگے بڑھنے لگی، ابھی آدھے راستے میں تھی کہ بجلی چمکی پانی ٹپ ٹپ برسنے لگا۔ راستے میں پتھر سے ٹھوکر لگی۔

اف! اس کے منہ سے نکلا، پاؤں میں شدید درد کی ٹھیس اٹھی، اسی وقت بارش سے بچنے کے لیے، درخت کی اوٹ میں بیٹھی بلی کی آواز سنائی دی: ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہمت کرو! سامنے دیکھ کر قدم بڑھاؤ ۔“ گلو نےچوکناہوکر بی بلی کی طرف دیکھا اور اعتماد سے قدم بڑھانے لگی۔ ”شاباش ! ننھی گلہری! شاباش!“ اسے بلی کی آواز سنائی دی، وہ اور تیزی سے بھاگنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ گھر پہنچ گئی، اگرچہ وہ ساری کی ساری بھیگ چکی تھی اور اس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا، لیکن دانا دشمن کی حوصلہ افزائی نے اس کی ہمت بڑھا دی۔ گلونے ماما کے آنے سے پہلے ہی اپنا زخم خود ہی صاف کرلیا، گھر پہنچنے کی خوشی میں وہ ہر تکلیف بھول چکی تھی۔

تازہ ترین