تسلسل سے پیش آنے والے ایسے واقعات جن میں خود حکومت کیلئے پریشانی پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے بعض وزراء بھی ایسے الٹے سیدھے بیان داغ دیتے ہیں ان بیانات کو بنیاد بنا کر اپوزیشن کو بھی خوب سیا ست کرنے کا موقع ملتا ہے ،بعض وزراء ایسی غیر سیا سی باتیں کر جاتے ہیں اور لوز بال پھینک دیتے ہیں اپوزیشن کو چوکے چھکے مار نے کا با آسانی موقع ملتا ہے یہ بات زبان ز د عام ہے وزیر اعظم عمران خان کو بعض وزراء اور مشیر درست مشورے نہیں دیتے جس سے خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وزیر اعظم صاحب کے پاس وزراء کی فوج ظفر موج موجود ہے صرف 6/7وزیر اور ترجمان حکومت اور وزیر اعظم کا دفاع کرتے ہیں۔
باقی وزیر تماشائی بنے ہو ئے ہیں بے شک حکومت کمزور وکٹ پر ہے لیکن حکومت کا دفاع تو سب وزرا اور مشیروں کو کرنا چاہیے حکومت کے اتحاد ی بھی خاموش تماشائی ہیں وزیر اعظم کواس کا نوٹس لینا ہو گا اور اپنی پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو متحرک کرنا ہو گیا ،تاکہ ان کو سب اچھا کی رپورٹ کی بجائے عوام کے صیح مسائل اور خیالات پہنچیں جن کی روشنی میں پالیسیاں بنائی جائیں۔
مہنگائی سے لوگ بہت تنگ ہیں بلکہ حکومتی اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتیں بھی بہت پریشان ہیں کئی اراکین اسمبلی تو اپنے حلقوں میں جانے اور عوام کا سامنا کرنے کترا تےہیں کیو نکہ مہنگائی رکنےکا نام نہیں لیتی اور حکومت کاکنٹرول نظر نہیں آتا پہلے عوام اپوزیشن جما عتوں کے کہنے پر نہیں چلتے تھے اب عوام تنگ آمد بجنگ آ مد کے مصداق سڑکوں پر آنا شروع ہو گئے یہ لاوا ابل رہا ہے اور پھٹ بھی سکتا ہے اگر موجودہ حالات میں اپوزیشن کے پریشر میں آکر وزیر اعظم عام انتخابات کا اعلان کرتے ہیں تو ان کا جیتنا محال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں جن میں ہیلتھ کارڈ کا اجرا، نوجوانوں اور کسانوں کے قرضوں کا پروگرام ،کنسٹر کشن کے کاروبار کو وسعت دینے ڈیموں کے تعمیر کے منصوبوں اجرا ،انڈسٹری کے لیے مرات ،بل خصوصا کپڑے کی انڈسٹری کی زبردست ترقی، ٹیکسوں کی ریکارڈ وصولی ہوئی قرضوں کی ادائیگی وغیر ہ کی گئی ہے اور کورونا پر موثر کنٹرول کیا گیا ،جس کی دنیا میں پزیرائی ہوئی۔
جبکہ پاکستان کو گرین بنانے کا کام بھی بہت شاندار رہا ، ان سب باتوں کے باوجود پیٹرول گیس ،بجلی ،چینی،گھی آٹا ،دالوں ،سبزوں ،گوشت،پھلوں کی قیمتوں اور دیگر اشیائے خورد کے علا وہ ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضا فے سے عوام کی چیخیں نکل گئیں ہیں،اگر چہ وزیر اعظم نے ایک کھرب 20 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے ،مگر عام لوگوں کو ابھی تک یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کیسے ریلیف حا صل کریں گے ،یہی پیسہ اگر پیٹرول کی قیمتیں کم کرنے پر خرچ کیا جا تا اور تو بہت سی چیزوں کی قیمتیں نیچے آ سکتی ،مہنگائی کا طوفان حکومت سے نہیں رک رہا ہے اور اس میں مزید اضا فے کا امکان ہے ، گڈو گو رنس کا فقدان بیوروکریسی اور تاجر حکومت سے تعاون نہیں کررہے ان لوگوں کی نواز شریف دوران کی عادتیں خراب ہیں انہوں نے جو اس دور میں مزے لوٹے ہیں یقینا اسی لیے چیف سیکرٹری ،کمشنر ،ڈی سی، اسسٹنٹ کمشنر ، پولیس افسران اور دیگر شعبوں کے بیورووکریسٹ کی بڑی اکثریت دلی طور پر نواز شریف پارٹی کے ساتھ ہے ، اس حکومت کی غفلت یا لاپروہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی بھی اہم عہدوں پر نواز شریف دور کے مراعات یافتہ بیوروکریٹس ہی برا جمان ہیں۔
اگر چہ بیورو کریسی وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ ان بیوروکرٹیس کو اہم عہدوں پر فائز کریں جو نواز شریف حکومت میں انتقامی کاروائیوں کا شکار ہو ئے ، بیوروکریٹس اس لیے بھی موجودہ حکومت سے تعاون نہیں کر رہی کیو نکہ ان پر بھی احتساب کی تلوار لٹک ر ہی ۔ چند دنوں پہلے اپوزیشن کے مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلسوں کے ساتھ ساتھ تحریک لبیک پاکستان نے بھی احتجاجی پروگرام شروع کر دیا بلکہ مطالبات منوانے کے لیے عملی جدو جہد شروع کی۔
بہرحال پرامن طریقے سے تحریک لبیک کا معاملہ بھی حل ہوگیا۔ ایک اور اچھی خبر آئی ہے کہ حکومت اور تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی کے لیے مذکرات میں پیش رقت ہوئی ہے اور مذاکرا ت کامیاب کی طرف جا رہے اور کئی طالبان قیدی لیڈروں کی رہائی پر اتفاق ہو گیا ہے ،یہ مذاکرات بھی فوج کے بغیر ممکن نہیں لگتے ، ممکنہ معاہدے کے مطابق تحریک طالبان پاکستان سیز فائر کا اعلان کرے گی۔
اس حوالے سے افغان طالبان حکومت ضامن کا کردار ادا کیا ہے اگرچہ پاکستانی اورٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے مذاکرات میں پیش رفت کی تصدیق نہیں تاہم دونوں فریق انتہائی محتاط رویہ اختیار کئے ہو ئے ہیں اگر تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جا تا ہے تو پاکستان امن کا گحوارا رہا بن جا ئے گا،ادھر پی ڈی ایم نے اور پی پی پی نے مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی ہے ،پی پی پی نےپنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے۔
اگرچہ ان کے مظاہروں میں کارکنوں کی کثیرتعداد شرکت کر دہی ہے اور کارکن متحرک ہو ئے ہیں مگر ابھی ان مظاہروں میں عوام کا جم غفیر شامل نہیں ہوا، کیو نکہ لوگ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کے خلاف پولیس کارروائی کرتی ہے اور گرفتاریاں کرتی ہے تو ان کے خلاف دہشت گردی پرچے درج کیے جا تے ہیں اور بعد میں کوئی سیا سی جماعت نہیں پوچھتی، دوسرے عوام کو اپنی د یاڑی کا فکر ہے کہ اگر ایک دن مزدوری نہ کی تو ان کے بچے فاقہ کشی کاشکار جا ئیں گے ،دوسری طرف پی ڈی ایم نے بھی احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ،وہ پہلے صوبائی دارالحکومتوں میں ریلیاں نکالیں گے۔
13 نومبر کو کراچی ،17 نومبر کو کوئٹہ ،20 نومبر کو پشاور میں مہنگائی مارچ ہو گا آخری ریلی لاہور میں ہو گی اور دسمبر میں فیصلہ کن لانگ مارچ اسلام آباد کی طر ف کیا جا ئےگا ،مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے بلاول بھٹو سے بھی رابطہ کیا ان کی کوشش ہے کہ پی پی پی کو بھی اس احتجاجی تحریک میں شامل کیا جا ئے ،دیکھنا یہ ہےکہ پی پی پی سولو فلائٹ چلائے گی یا وہ دوبارہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر احتجاج کرے گی ۔