یہ وہی پرانی خستہ حال گاڑی ہے تاہم اس کا ڈرائیور تبدیل ہو گیا ہے، یہ تاثر نئی منتخب حکومت کے حوالے سے قائم ہوا ہے اور دو ماہ قبل اقتدار سنبھالنے والی حکومت کے بارے میں اس میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں معاشرے میں اس طرح کی مثبت یا منفی آراء زور پکڑتی جا رہی ہیں جس کا اظہار رائے عامہ ہموار کرنے والے قلم کار اور میڈیا پر آنے والے کر رہے ہیں۔ اس آرٹیکل کا مقصد ان تمام سوالات کے جوابات فراہم کرنا ہے۔ یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت کو اس طرح کی بدترین معیشت وراثت میں نہیں ملی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پلاننگ کمیشن جیسے اہم ادارے گزشتہ 5 برس کے دوران خطرناک حد تک کمزور ہوئے ہیں۔ دو ماہ کے عرصے میں معیشت کی بحالی کی امید کرنا کسی معجزے کے ہونے سے کم نہیں۔ معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے تناظر میں پہلے بھی میں یہ کہ چکا ہوں کہ موجودہ بحران سے معیشت کو نکالنے میں 3 سال لگیں گے۔
سابقہ دور حکومت اور اس کی کمزور معاشی ٹیم نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور لاکھوں افراد کی تکلیفوں اور پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ بیلٹ باکسوں کی طاقت سے پاکستان کے عوام نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف ملک پر حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے بلکہ ملکی معیشت کو سنگین بحران سے نکالنے کیلئے ووٹ دیا ہے۔ اسی لئے لوگوں کی توقعات کو پورا کرنا موجودہ سیاسی قیادت کے لئے ایک سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر دو ماہ کے اندر ہی کچھ نہ کرنے یا اسٹیٹس کو کے برقرار رکھنے کا تاثر پیدا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی قیادت لوگوں کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکامی کی طرف جارہی ہے۔ اس طرح کے تاثرات کو ایک مثبت سوچ کے ساتھ تبدیل کیا جانا چاہئے۔ نئی حکومت کو وراثت میں ملنے والی معیشت اور ملکی مالی اداروں کی صورتحال پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ نئی حکومت کو ایک تباہ کن معیشت ورثے میں ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشی پیداوار سے لیکر قیمتوں تک، محصولات سے لیکر اخراجات تک، سرکاری قرضوں سے گشتی قرضوں تک، مانیٹری پالیسی میں توسیع سے شرح سود تک، شرح مبادلہ سے بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر تک اور ادائیگوں میں توازن تک، کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں کی معاشی انتظامیہ قومی مفاد میں ٹھیک حالت میں ہو۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ کی جانب سے تین اہم اداروں اور ان کے عہدیداران کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد بھی وہ انہی لوگوں کے ذریعے معیشت کی بحالی کی توقع کر رہے ہیں جو کہ گزشتہ دور حکومت کے گناہوں میں برابر کے شریک رہے ہیں، یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر وزیر خزانہ پاکستان کی عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
کیا یہ ایسا نہیں ہے کہ اسٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے معجزات کی توقع کی جارہی ہے؟ اسی طرح کے اقدامات کے ذریعے سے لوگوں میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ حکومت غیر سنجیدہ ہے۔ سرکاری اداروں کی ساکھ کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہئے تھی۔ پرائیوٹ سیکٹر مسلم لیگ (ن) کی 11 مئی کے الیکشن میں کامیابی پر بے حد خوش تھا اور وہ لوگ مالی سال 2013-14ء کے بجٹ کا انتظار کر رہے تھے تاکہ حکومت کی ترجیحات اور سمت معلوم کی جاسکے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بجٹ کو چند روز میں تیار کیا گیا تھا اسی لئے یہ زیادہ تر پرائیوٹ سیکٹر کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ یہ لوگ وزیراعظم نواز شریف سے توقع کر رہے تھے کہ وہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ کریں تاکہ ان کے مورال کو بڑھایا جاسکے۔ وزیراعظم کراچی تشریف لائے تاہم انہوں نے پرائیوٹ سیکٹر کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ایسوسی ایشن کے اراکین بھی توقع کر رہے تھے کہ وزیراعظم ان سے خطاب کریں گے جو کہ ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ اس عمل سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ معیشت موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ اسی طرح 2012-13ء کے بجٹ نے بھی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ بجٹ 2012-13ء اہداف حاصل کرنے میں سابقہ بجٹ سے مختلف ہے؟اسی طرح ماہ جولائی میں جاری کی جانے والی معیشت کے کلاں کی کئی متغیر پالیسیوں نے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ رواں سال جولائی کے مہینے میں مہنگائی بڑھ کر8.3 فیصد تک ہو گئی جو کہ مئی کے مہینے میں 5.1 فیصد اور جون کے مہینے میں 5.9 فیصد تک تھی۔ گندم کی قیمتوں نے مہنگائی میں اضافے میں زیادہ کردار ادا کیا۔ ملک کو اس وقت 15 سے 20 لاکھ ٹن گندم کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ موقع پرست عناصر کے لئے پیسہ بنانے کے لئے ایک اہم ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت کو اس بحران کو سنجیدگی سے لینا چاہئے تاکہ معیشت کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے مختصر مدت میں مہنگائی میں10 فیصد سے زائد تک کا اضافہ ہوسکتا ہے۔چند روز میں شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت 98.5 روپے سے بڑھ کر 102 روپے تک ہونے سے حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران سرکاری قرضے میں 2 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے تیل بھی مہنگا ہوگا اور بجلی کی پیداوار پر آنے والی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ حقیقتاً اسی وجہ سے اس تاثر میں اضافہ ہورہا ہے کہ حکومت کو معیشت کے انتظام کار میں مشکلات کا سامنا ہے باوجود اس کے کہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ اسی طرح سابقہ دور حکومت کی طرح طرز حکمرانی میں بھی لوگوں نے کوئی فرق نہیں دیکھا۔ امن و امان کی صورتحال اب بھی خراب ہے۔ جیلوں کا ٹوٹنا ایک قابل توقع عمل ہوگیا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی کراچی میں خون ریزی جاری رہی۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس کے بعد صوبوں اور مرکز کے نظریات میں انحراف سامنے آرہا ہے۔ اس طرح کے متضاد نظریات آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ یہاں وزیر خزانہ کے لئے کچھ الفاظ کہوں گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہے وزیر خزانہ اپنی وزارت کو مناسب وقت نہیں دے رہے۔ انہوں نے خود کو سیاسی معاملات میں الجھا دیا ہے جس کی وجہ سے بطور وزیر خزانہ ان کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ انہیں اپنی معاشی ٹیم سامنے لانا ہوگی جس میں وزارت کے لئے ایک اہل اور ذہین ترجمان کا تعین کرنا ہوگا اور خود کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہوگا۔ ان کی کارکردگی کو معیشت کی کامیابی سے دیکھا جائے گا۔آخر میں کوئی بھی شخص دو ماہ کے دوران معیشت کی بحالی میں کرشمات کی توقع نہیں کر سکتا تاہم حکومت کو کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ اسے پاکستان کے عوام تک اپنی رابطے کی حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا خصوصاً ان لوگوں تک جو رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔حکومت یا ملک کسی ناکامی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ غیر فعالیت یا اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے تاثر کو بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات سے فوری طور پر ختم کرنا ہوگا۔