پاکستانی سیاست 1980 سے ہماری معیشت کی حالت کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ حالیہ برسوں میں برق رفتاری سے بڑھنے والی مہنگائی سے لگایا جا سکتا ہے، جس نے متوسط طبقہ ختم کرکے رکھ دیا ہے ، معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی کا گراف یہاں رکنے والا نہیں کیونکہ گزشتہ تین برسوں میں قومی قرض میں 16 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اگرچہ سات ہزار چار سو ساٹھ ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے گئے ہیں مگر 8,540 ارب روپے نظام حکومت چلانے پر استعمال ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں نظام حکومت چلانے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہےجو مزید مہنگائی کا موجب بنیں گے۔
حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی ڈالر کی اڑان جاری ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کے دو برسوں میں کورونا نے بھی معیشت کو دبائے رکھا ہے مگر تبدیلی کا عزم لے کر آنے والے حکمرانوں کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں، پٹرول وگیس کی خریداری اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لئے عذاب الٰہی کی شکل اختیار کر گیا ہے،جس کی وجہ سے عوام ان حکمرانوں کو یاد کرتے ہیں جنہیں عدالت عظمی کرپٹ قرار دے کر نہ صرف نا اہل قرار دے چکی ہے بلکہ انہیں قید و بند اور بھاری جرمانوں کی سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حالات 2018 کے انتخابات کے بعد سےہی بحرانی کیفیت کا شکار ہیں اور انتخابات کے روز سے ہی اپوزیشن نتائج ماننے سے انکاری ہے، بدقسمتی سے تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالنے والی حکومت22 کروڑ عوام سے کئے گئے وعدے تو پورے کرنے میں ناکام تھے ہی مہنگائی کو بھی قابو میں رکھنے میں ناکام رہی، آئی ایم ایف سے قرض کے بدلے ڈالر 70 روپے مہنگا ہو چکا ہے،تحریک لبیک پاکستان سے ہونے والے معاہدہ نے پاکستان کی سیاسی فضاء میں نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے، مختلف گروہ جن پر حکومت نے پابندی لگائی ہوئی تھی۔
انہوں نے بھی بحالی کے مطالبات شروع کر دیئے ہیں، اور تو اور الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم لندن بھی بحالی کے لئے متحرک ہو گئ ہے،حکومت اور اپوزیشن میں نئی صف بندیاں شروع ہو گئی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی ایم پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ جدوجہد پر متفق ہوگئے ہیں اور حکومت کے خلاف سینیٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو قابل عمل بنانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے اس ضمن میں حکومت کے اتحادیوں( ق)لیگ اور ایم کیو ایم سے بھی رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے،سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نئی صف بندیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ تبدیلی کا بگل بج چکا ہے اس کا میکانزم کیا ہوگا؟ یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا، یہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔
یہ افواہ بھی اڑائی جا رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے استعفی لکھ کر رکھ لیا ہے اور نامزدگی پر بات چیت ہو رہی ہے، فیصلہ تمام حلقوں کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا اندر کے لوگوں میں شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک امیدوار بتائےجاتے ہیں،کہا جا رہا کہ اس بار پہلی مرتبہ وزارت عظمی کا سہرا کے پی کے کی سیاسی شخصیت کے سر پر سجے گا،سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک چنگاری کے بھڑکنے سے راکھ میں موجود چھپی چنگاریاں بھی اپنا اثر دکھانے لگتی ہیں، سیاسی منظر پر ہلچل دکھائی دے رہی ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس کی کامیابی کا دارومدار تمام قوتوں کے ایک پلیٹ فارم پر آنے سے ہوگا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی نے تین برسوں میں پہلی بار کھل کر حکومت سے اختلاف کیا ہے، پارلیمانی پارٹی نے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تمام تر اختیارات پرویز الہی کو سونپ دئیےہیں جو حسب ہدایت چلیں گے۔اپوزیشن کے بعض حلقے تو بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی سے عدالتی مفرور سابق وزیراعظم سے رابطہ کیا جا رہا ہے،اور انہیں چوتھی بار وزیراعظم منتخب کرنے کی آس دلائی جا رہی ہے،اپوزیشن موجودہ حکمرانوں سے جان چھڑانے کے ٹارگٹ پر لگی ہوئی ہے تاہم پی ڈی ایم اقتدار میں آنے کے لئے ہرگز پرجوش نہیں، شفاف انتخابات کا ساڑھے تین سال سے مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر عملاً شفاف انتخابات کے لیے مل بیٹھنے کا کوئی موقع استعمال نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ہاتھ ملانے تک کے لیے تیار نہیں ،کیونکہ وہ کرپشن میں ملوث کسی لیڈر سے بات چیت نہیں چاہتے، قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو پوری اپوزیشن کی مکمل حمایت حاصل ہے مگر وہ خود کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں، انہیں تمام سیاسی فیصلے اپنے بڑے بھائی اور قائد سابق وزیراعظم محمدنواز شریف کی ہدایت اور رضا مندی کے مطابق کرنا ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مرہم نواز قومی اداروں کے بارے میں جس جارحانہ موقف کا اظہار کر چکے ہیں اس کی روشنی میں ان کا سیاسی مستقبل تابناک اور روشن قرار نہیں دیا جا سکتا جب کے شہباز شریف اب بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے انھیں اپنے بھائی کے بیانیے اور رضامندی سے نکلنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی سیاسی حلقے اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے اور طویل عرصہ تک پنجاب میں بحثیت وزیراعلی عوام کی خدمت کرنے کے باوجود قیادت کا وہ جواز پیدا نہیں کرسکے جو نواز شریف کا خاصہ ہے، (ن) لیگ کا ووٹ بینک آج بھی نواز شریف کے نام پر ہے ،مریم نواز تو اس ووٹ بنک کو حاصل کر سکتی ہیں مگر شہباز شریف مدار چھوڑنے سے بےحیثیت ہو کر رہ جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت اپنا 5سالہ دورانیہ پورا کرے گی یا نہیں، یہ سوال سٹے بازوں تک بھی پہنچ گیا ہے جہاں اس پر ہلکے پھلکے انداز میں سٹہ بھی کھیلا جا رہا ہے،کچھ سٹے باز تو دسمبر 2021ء عمران خان حکومت کا آخری مہینہ قرار دے رہے ہیں مگر دلائل سے گفتگو میں اکثر خاموش ہو جاتے ہیں اور یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے،حکومتی حلقے تو اپوزیشن کے اس احتجاج کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لیے انتخابی مہم قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قومی الیکشن 2023ء میں ہی ہوں گے اور ان میں بھی پی ٹی آئی ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئے گی،(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کرپشن کی وجہ قصہ ماضی بن چکی ہیں،اپوزیشن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو حکومت کے خلاف استعمال کر رہی ہے مگر عوام سمجھدار ہیں اور وہ پی ڈی ایم کے احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی سے پی ٹی آئی کے حامی پریشان ہیں، اب مختلف سکیموں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کا آغاز کر دیا گیا ہے،صحت کارڈ جلد پنجاب میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے،(ق) لیگ اور ایم کیو ایم کہیں نہیں جائیں گے، عمران خان کے ساتھ ٹکے رہیں گے اپنے مطالبات کے چکر میں کبھی کبھی وہ الگ ہونے کا شوشہ چھوڑتے ہیں مگر جائیں گے کہیں نہیں۔
دو دو وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں،سیاسی مستقبل اس لیے پی ٹی آئی کا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پنجاب میں اپنا پرانا ووٹ بینک بحال کر سکے جبکہ (ن) لیگ کے ووٹ بینک پر شب خون مارنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان میدان میں اتر آئی ہے ،نجینئرنگ کے تقاضے بدل رہے ہیں،جے یو آئی کو آئندہ انتخابات میں ماضی کی طرح کامیابی نہ مل سکی تو اس کا مستقبل بھی چھوٹی مذہبی جماعتوں کی طرح بکھر جائے گا۔