سیدہ فرحت
ننھی کنول کو زکام ہوگیا تھا۔ اُسےپانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ سردی کا موسم شروع ہوگیا تھا لیکن وہ امی ابہت منع کرنے اور سمجھا نے کے باوجودغباروں میں پانی بھر کراس کا فوارہ بنانا، اسے دوسروں پرپھینکنے سے باز نہیں آئی۔ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر کیا تھا اسے زکام ہوگیا۔ ناک سے پانی، آنکھوں سے پانی، آنکھیں لال۔
’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخاربھی ہوگیا۔اسکول سے چھٹی کرنی پڑی۔ گھرپراکیلے لیٹے لیٹے اس کاجی بہت گھبرارہا تھا۔ امی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اورابا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچے بھی سب اپنے اپنے اسکول جاچکے تھے۔
جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تووہ چپکے سے اٹھی اور گھرکے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی، مگراکیلے کب تک کھیلتی ۔بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔ رنگ برنگی تتلیاں ،لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھررہی تھیں۔
وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پرپڑگئی۔ بھن بھن کرتا کالاکلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پراوردوسرے سے تیسرے پراڑتاپھررہاتھا۔ جب وہ کسی پھول پربیٹھتا توپھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ننھی کنول تھوڑی دیربھونرے کوغور سے گھورتی رہی اورپھر اس نے بھونرے سے کہا،’’میاں بھونرے، تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں توکتنی رنگ برنگی اورسندرہیں؟‘‘
ننھی کنول ایک آواز سن کرایک دم چونک پڑی۔
’’کیاتم میری کہانی سنوگی؟‘‘اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کررہا تھا۔ اوراسی میں سے یہ آواز آررہی تھی۔
’’ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔مجھے سونے چاندی ہیرے موتی سے بہت پیارتھا۔ میرا محل سونے کاتھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول ، پتے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کرکوڑے کاڈھیربن جاتے ہیں۔ اورہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں،کبوتروں کی غٹرغوں کا شوربھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس میں نے ایک دم حکم دیا۔
یہ سارے باغ اجاڑ دیئے جائیں۔ پھول پتے نوچ کرپھینک دیئے جائیں۔ چڑیوں کو ماردیاجائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں ،ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا باندھی جائیں۔‘‘
’’بس میراحکم ہونے کی دیرتھی۔ تمام باغ اجڑگئے۔ چڑیاں مرگئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگادی گئیں۔ مگراس کے بعد کیاہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘
’’کیاہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرے دیس کے بچے جوباغوں میں کھیلتے پھرتے تھے،تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہوگئے، پھر بیمارہوگئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ بچوں کے ماں باپ پریشان ہوگئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہوں نے میرے محل کو گھیرلیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔
انہوں نے کہاتم نے ہمارے دیس کواجاڑ دیاہے۔ ہمارے بچوں کودکھی کردیاہے۔ انہیں بیمارڈال دیاہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کاہے۔ جاؤ۔یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں ،ہری ہری گھاس اورجھومتے پودوں کولے آؤ، ناچتی گاتی چڑیوں اوررنگ رنگیلی تتلیوں کو لاؤ، جنہیں تم نے بھگادیاہے۔ ان سب کو منالاؤ تواس دیس میں آنا۔
’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھررہا ہوں— میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھررہا ہوں۔
ننھی کنول!کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لئے کہہ دوگی۔ اب مجھے پھولوں ،پتوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہوگیاہے۔‘‘
ننھی کنول کی امی کوجب اپنے کام سے ذرافارغ ہوئیں تووہ اسے دیکھنے اس کے کمرے میں آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں، انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سورہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے گال کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اڑرہا ہے۔