عوام یا اقوام کی ایک قیادت تو وہ ہوتی ہے جو سیاسی یا انتظامی حوالے سے ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ پچھلے زمانوں کا دستور یہ رہا ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی تھی،وہ جبری طور پر یا سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے قیادت کے منصب پر فائز ہو جاتا تھا۔ آج بھی جن معاشروں میں شعور کی بجائے جہالت حاوی ہے، وہاں جنگل کی اس روایت کا چلن ہے لیکن بیسویں اور اکیسویں صدی میں انسانی شعوری ترقی کے باعث دنیا نے یہ اصول تسلیم کر لیاہے کہ اقوام کی سیاسی قیادت انہی کا حق ہے جو عوام کا شفاف مینڈیٹ لے کر آتے ہیں۔ عوام یا اقوام کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ ایک فکری و نظری قیادت بھی ہوتی ہے جو عوامی شعور کو جلابخشتی ہے اور سیاسی قیادت کے انتخاب میں عوام کی دستگیری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اس میں دانشور، مدبر، شاعر، ادیب، خطیب، کالم نگار، صحافی اور پیر فقیر سب شامل ہوتے ہیں، یہ لوگ یا ان میں سے کچھ اگر بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں، اپنے ذاتی اور گھٹیا مفادات کیلئے عوام یا قوم کو گمراہ کرتے ہیں، حقائق یا سچائی کو مسخ کرتے ہیں یا مفاداتی تشریح کرتے ہوئے غلط تصویر کشی کرتے ہیں، اپنے ذہنی خلفشار و تعصبات کی وجہ سے عوام میں نفرت کے بیچ بوتے ہیں، چھ فٹے کو دو فٹا اور دو فٹے کو چھ فٹا دکھاتے ہیں، معصوم سیاسی قیادت کو کرپٹ اور کرپٹ چالباز و مکار کو صادق و امین بتلاتے ہیں تو یہ بھی قوم کے لیے نفرت کے سوداگرہی ثابت ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کس قدر مختصر ہے لیکن یہ ابن الوقت ضمیر فروش اپنے چند روزہ مفادات کی خاطر کیسی کیسی سودے بازیاں کرتے ہیں، اقتدار کا حریص و پجاری، بڑے عہدے پر براجمان ہونے کے لیے، لاکھوں انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کر جاتا ہے، اپنے تئیں وہ تاریخ میں اپنا نام بنا رہا ہوتا ہے لیکن وہ لالچی گنوار اتنا نہیں جانتا کہ اس باشعور سماج میں بالآخر عوام اور تاریخ سے کچھ پوشیدہ نہیں رہے گا۔ آج اس نے اپنی سیاہ کاریوں کے ذریعے اگر بلند تر عہدہ حاصل کر بھی لیا، ایک مخصوص طبقے میں اپنی بلے بلے کروا بھی لی ہے تو جونہی جعلی پروپیگنڈہ کی دھول بیٹھے گی، وقت اور حقائق اس کی تمام تر اصلیت انہی عوام پر فاش کر دیں گے۔ عوام کی فکری رہنمائی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے والے اس لیے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ سیاسی قیادت یا منصب پر فائز ہونے والے کا دور محدود ہوتا ہے، اس لیے اس کے اثرات بھی اس قدر دیرپا نہیں ہوتے جتنے فکری رہنمائی کرنے والے کے، یہ ظالم تو نسلوں پرحکمرانی کرتے ہیں، اپنی شعوری یاجاہلی فکر کے ذریعے۔ اسی لیے انہیں سیاسی قیادت سے بھی زیادہ حساس و ذمہ دار ہونا چاہیے۔ہماری اس دنیا میں کتنے بڑے بڑے ادیب، شاعر، مفکر و مدبر گزرے ہیں، ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہیں دنیا برسوں بلکہ صدیوں تک اپنا مصلح و نجات دہندہ قرار دیتی رہی، بالآخر یہ بھید شعور انسانی پر آشکار ہوا کہ وہ مصلح درحقیقت اپنی ذات کی عظمت کے خبط میں مبتلا ذہنی مریض تھے جو دنیا میں نہ ختم ہونے والی نفرت کی ابدی آبیاری کر گئے، لوگ زندگی میں جن کو نجات دہندہ سمجھتے رہے ،اُنہوں نے درحقیقت بدترین تباہی مچائی۔ بلاشبہ تاریخ انسانی میں ایسی اولوالعزم شاہکار شخصیات بھی گزری ہیں، جنہوں نے دنیا میں امن و آشتی، محبت و سلامتی کی ایسی صدائیں بلند کیں کہ انسانیت ان کی عظمت کے سامنے سرنگوں رہے گی مگر پہچان کی کسوٹی بہرحال ان کے افکار کے ساتھ ساتھ پیروکاروں کے رویے ہی قرار پائیں گے۔ان تمام تر اعلیٰ آدرشوں اور شعور بھرے افکارسے ہٹ کر ہم عوام کی فکری و شعوری رہنمائی کرنے والے خطیبوں یا قلمکاروں پر آ جاتے ہیں، پوری دنیا کو چھوڑ کر اپنے سماج میں ان کی کارکردگی ملاحظہ کرتے ہیں۔ آج کل جنہیں اینکر، کالم نگار، یا صحافی کہا جاتا ہے ان میں سے کتنے ہیں جو پاپولر آوازوں سےہم آہنگ ہوتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کتنے ہیں جو عوام کے حقیقی مفاد میں سچائی اور انسانیت کے ساتھ جڑے رہتے ہیں؟ کتنے ہیں جو عوام میں سستی شہرت کے حصول کی خاطر پاپولر نقطہ نظر کے ترجمان بنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور کتنے ہیں جو اس اصول پر ڈٹ جاتے ہیں کہ ہم نے کسی بھی شوگر کے مریض کو کسی بھی ظاہری یا پوشیدہ فائدے کیلئے میٹھی گولیاں نہیں دینی ہیں؟ اپنی واہ واہ کے لیے عوام میں شعوری سربلندی کی بجائے عقیدتوں کے نام پر جذباتیت نہیں بھڑکانی ، مذہبی منافرتوں کے الائو پرپانی کی بجائے تیل نہیں ڈالنا؟
کیا ہمیں اپنی صفوں میں ایسی کالی بھیڑوں کی پہچان نہیں ہونی چاہیےجو اپنے چھوٹے بڑے مفادات کیلئے عوام کو سیاسی، سماجی یا مذہبی حوالوں سے گمراہ کرتی ہیں؟ کیا ایسے ہی لوگ نہیں تھے جنہوں نے کبھی معصومیت و مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر ایسی منافرت پھیلائی کہ لاکھوں بے گناہ انسان لقمہ اجل بنا دیے گئے، یہ ہمارے لکھاری یہ منافرتوں کے پجاری ہمارے کیسے دانشور ہیں جو ہر مداری ہر بیماری کو قوم کے سامنے نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جب اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوتا ہے تو ان کے جعلی ہیروز کی اصلیت عوام پر آشکار ہونا شروع ہوتی ہے تو وہی تماش بین قوم کے سامنے لفظوں کے ٹسوے بہانا شروع کر دیتے ہیں، کوئی کہتاہے لعنت ہے مجھ پر مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی میں تو سمجھا تھا کہ تبدیلی کی یہ نئی نویلی قیادت آئے گی تو میری ہی نہیں قوم کی بھی لہر بہر ہو جائے گی لیکن مجھ سے تو غلطی ہو گئی میں تو بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑیے کی اصلیت کو پہچان ہی نہ سکا۔ ایسے ٹسوے بہا کر یہ نام نہاد دانشور و صحافی صاحبان درحقیقت ایک مرتبہ پھر پاپولر اپروچ کے ساتھ چلنے کیلئے کوشاں ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ 47کے بعد سے کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا لہٰذا اے میری معصوم قوم! ڈگڈگی بجاتے سیاسی مداریوں کے ساتھ ٹسوے بہاتے ان ابن الوقت کباڑیوں کو بھی پہچانو یا پہچاننے کی کوشش کرو جو بدلتی ہوائوں کا رخ دیکھتے ہوئے بڑبڑاتے ہیں کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔