• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ساڑھے تین برس گزر گئے: حکومت اور اپوزیشن قومی معملات پر مل بیٹھ نہ سکے

صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی نہیں، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بظاہر ایسے نظام کی خواہاں ہیں جس میں کوئی قوت مداخلت نہ کر سکے، مگر ایسا نظام قائم کیسے ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینےکو کوئی تیار نہیں ہے ساڑھے تین برس گذر گئے مگر حکومت اور اپوزیشن قومی معاملات پر مل بیٹھنے کو تیار نہیں، پارلیمنٹ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی جگہ ہے، وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے اور اکثریت کے بل بوتے پر بڑے بڑے فیصلے کئے جا سکتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کرپشن مقدمات میں ملوث پارلیمنٹرینز سمیت کسی کو ساتھ بٹھانے کو تیار نہیں یہاں تک کہ وہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے قومی معاملات پر مشاورت کو بھی جرم تصور کرتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ پشاور کے دوران پنجاب، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کے پی کے ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ، وزیراعظم نے سندھ میں صحت کارڈ دینے کا اعلان تو نہیں کیا تاہم انہوں نے کراچی میں گرین لائن کا افتتاح کرتے ہوئے سندھ حکومت کو اپنے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دے دی ہے، وزیراعظم کی طرف سے دی گئی اس دعوت پر پی پی پی حکومت کیا ردعمل دیتی ہے، ذیادہ دور کی بات نہیں، 2018ء کے انتخابات کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دس سیاسی جماعتیں پہلے دن سے ہی انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے نئے شفاف اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 

مداخلت سے پاک نظام کا قیام 2016ء میں عدالت عظمی سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے (ن) لیگ کا قومی بیانیہ ہے 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد سے ہی جے یو پی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جارحانہ انداز میں اپوزیشن لیڈر بن کر وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹیڈ قرار دے کر ان کی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں الیکشن کے دوسرے روز ہی الیکشن کمیشن کے باہر احتجاجی دھرنا دے دیا گیا اور اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کو انتخابی نتائج کا ذمہ دار ٹھہرایا، جماعت اسلامی کے نائب مرکزی امیر میاں محمد اسلم کی رہائش گاہ پر منعقدہ پہلے اپوزیشن کے پہلے ہی اجلاس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں حلف ہی نہ اٹھائیں۔ 

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے اس خواہش کی حمایت نہ کی اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر قومی اسمبلی کے حلف برداری اجلاس میں شریک ہوئے اور حلف اٹھا لیا،مولانا فضل الرحمن کراچی سے احتجاجی جلوس کی شکل میں اسلام آباد پہنچے، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی راستے میں جے یو آئی کے احتجاجی جلوس میں شرکت کی تاہم یہ شرکت برائے نام ہی تھی، بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف سمیت دیگر رہنما کشمیر ہائی وے پشاور موڑ پر جے یو آئی کے دھرنے سے خطاب تو کرتے رہے مگر دونوں جماعتوں نے عملاً اس دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے افرادی قوت فراہم نہیں کی، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب اسمبلی میں سپیکر چودھری پرویز الہی نے مولانا فضل الرحمن ساتھ دینے کا عندیہ دے کر پشاور موڑ کا دھرنا ختم کروا دیا۔

 تین ماہ انتظار کے بعد مولانا فضل الرحمن دوبارہ متحرک ہوئے، انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے مل بیٹھ کر اپوزیشن کی 11جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد کے قیام کا اعلان کیا، جس نے دسمبر 2020ء میں اسلام آباد پر چڑھائی کا زور و شور سے اعلان کیا مگر استعفے جمع کرنے کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت پی ڈی ایم سے الگ ہوگئی حالانکہ (ن) لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ چھبیس مارچ دو ہزار اکّیس کو اگر ہم استعفےٰ دے دیتے تو عمران خان حکومت گھر چلی جاتی لیکن ایک جماعت کے پیچھے ہٹنے سے ایسا نہ ہو سکا ، ملک کو سی پیک منصوبوں سے نوازنے اور دہشت گردی سے پاک کرنے کے باوجود الیکشن میں نواز لیگ کو دھاندلی سے نکالا گیا۔

قانون اور عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلاء کو بھی بھرپور کردار ادا کرنا پڑےگا ،صوبہ سندھ کے قصبے مٹیاری میں بار سے خطاب کرتے ہوئے نون لیگ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عمران خان کے دور میں بھاری قرضوں کے باوجود ترقی کا کوئی کام نہ ہو سکا ہم نے 23 مارچ کو اس حکومت سے نجات کے لیے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے ، سندھ میں نون لیگ کو کامیاب کیا جائے ہم گاؤں گاؤں جائیں گے، ایک طرف ٹرانسپرنسی پاکستان پولیس اور عدلیہ کو ملک کے کرپٹ ترین ادارے قرار دے رہی ہے جبکہ عوام ملک میں مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں 93 فیصد کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ مہنگائی پی ٹی آئی کے دور میں ہوئی ہے جو حکمرانوں کے "نکمے پن" کا نتیجہ ہے، کمزور احتساب ،طاقتور طبقے کی ہوس اور کم تنخواہیں کرپشن کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ 

حکومتی نا اہلی ،کرپشن سیاستدانوں کی کار سرکار میں مداخلت اور پالیسیوں پر عدم عمل کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ،دوسری طرف وزیراعظم عمران خان پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دے رہے ہیں۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ حکومت تین سو بیس ارب روپے ہیلتھ انشورنس 120 ارب روپے راشن پروگرام کے لیے مختص کر چکی ہے ،جس سے تیرہ کروڑ عوام کو خوراک پر 30 فیصد رائے دے گی ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سردیاں گزرتے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہو جائیں گی، پہلے کی طرح انہوں نے لوگوں کو پھر یہ اس لگا دی ہے کہ دس برس میں دس ڈیم بنائیں گے مگر یہ نہیں بتایا کہ جو پیسے اکٹھے کیے تھے ان سے ڈیم تو بنا دو، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاکستان مسلم لیگ لاہور صدر پرویز ملک کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست این اے 133 پر ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک46811 ووٹ لے کر منتخب ہوگئی ہیں ان کے مد مقابل پاکستان پیپلزپارٹی کے اسلم گل نے 32313 ووٹ حاصل کیے۔

الیکشن میں صرف ساڑھے اٹھارہ فیصد ووٹروں نے حصہ لیاسب سے اہم بات یہ کہ مسلم لیگ (ن) تو الیکشن جیت گئی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی پہلے کی نسبت کافی زیادہ ووٹ ملے، اس حلقے میں الیکشن لڑنے والے نو امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گیں، حکمران جماعت پی ٹی آئی کا امیدوار تو پہلے ہی فارغ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے الیکشن میں گہما گہمی نہ ہوسکی اور نہ ہی لوگوں کو ووٹ پول کرنے کے لئے گھروں سے نکالا گیا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین