• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’اور شک نہیں دستاویز بیع نامہ بطور مرسوم ومعہود لکھ کر گواہیاں کراکر مشتری کو حوالہ کرنا اور اس کابخوشی لے لینا قطعاً تراضی(فریقین کی رضامندی کی دلیل)ہے۔ عندالانصاف اسی قدر تحقق ایجاب وقبول کےلیے کافی ہے ،اگرچہ اس سے پہلے زبانی گفتگو صرف اسی قدر آئی ہو کہ اس نے کہا :میں بیع نامہ تمہیں لکھواکردیتا ہوں، اس نے کہا:آمین ، یہاں تک اگرچہ صرف وعدو پسند تھا ،مگر بیع نامہ بطور مذکور لکھواکر دینا لینا ،دلیل تراضی ہوکر ایجاب و قبول ہوگیا ،جس طرح شائع وذائع ہے کہ والدین کوئی جائیداد اپنے روپے سے خرید کر بیع نامہ اپنے کسی بچے کے نام لکھواتے ہیں، تمام عالم جانتا ہے کہ اس سے مقصود اس کی تملیک ہی ہوتی ہے اور وہ جائیداد اسی بچے کی ٹھہرتی ہے، اگرچہ زبان پر ہبہ کا حرف بھی نہ آیا، (فتاویٰ رضویہ ، جلد18، ص:219)‘‘ ۔

مزید لکھتے ہیں :’’پس اگرکسی شخص نے اپنی جائیداد اپنے پسر کو تحریری، خواہ زبانی ہبہ کردی اور بشرائط ومعانی مذکورہ پسر کو قبضہ کاملہ دلا دیا، تو وہ جائیداد خاص اس پسر کی مِلک ہوگئی ،دیگر ورثاء کا اس میں استحقاق نہ رہا اور اگر ہبہ نہ تھا، نرا اقرار ہی اقرار تھا کہ اسے دے دوں گا، یا ہبہ زبانی، خواہ تحریری کیا مگر قبضہ نہ دیا ،تو وہ قبضہ کاملہ نہ تھا، اگر چہ پسر نے بعد موت پدرقبضہ کاملہ کرلیا ہو، تو ان صورتوں میں وہ جائیداد بدستور مِلکِ پدر پر باقی رہے گی، تمام ورثاء حسب فرائض اس سے حصہ پائیں گے ،جیسا کہ درمختار میں ہے: قبضہ دینے سے قبل واہب کی موت ہبہ کو باطل کردیتی ہے،(فتاویٰ رضویہ ، جلد19، ص:219، مُلخصاً)‘‘۔

امام احمد رضا قادریؒ سے سوال ہوا:’’زید نے دو مکان اپنے مال سے خریدے اوراپنے چھوٹے بالغ بھائی خالد کے نام کر دیے اور خریدتے وقت اپنے اہلِ خاندان کے روبرو کہا کہ یہ مکان میں نے صرف اپنے بھائی خالد کے لیے خریدے ہیں،ان کا کوئی اور مالک نہیں ہے اور خالد کو دستاویز بھی دے دی اور قبضہ بھی دےدیا، کرایہ نامہ بھی خالد کے نام بناا،اب زید وفات پاچکا ہے ، کیا ان مکانوں میں دوسرے ورثاء وراثت کا دعویٰ کرسکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا:’’اگر خریدتے وقت عقدِ بیع وشراء مالکانِ مکان وزید سے بنامِ خالد واقع ہوا تھا تو وہ شراء ، ’’شرائِ فضولی‘‘تھا اور اجازتِ خالد پر موقوف، پھر جب خالد نے مکانات پر قبضہ کرلیا تو وہ شراء جائز اور نافذ ہوگیااور سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ زید نے مکانات کی قیمت تبرُّع اور احسان کے طور پر دی تھی ، لہٰذا مکانات بلاشرکتِ غیرے خالد کی ملکیت ہیں اور اس پر زید کے دیگر ورثاء کا دعویٰ باطل ہے، (فتاویٰ رضویہ،ج:17،ص:205-206)‘‘۔

صورتِ مسئولہ میں بیوی کے نام مکان خرید کر اگر اُس کے تمام دستاویزات بیوی کے حوالے اور سپردکردیے ہیں ،تو ہبہ تام اور مکمل ہوچکاہے اور مکان بیوی کی مِلکیت ہے اور شوہر کو رجوع کرنے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ زوجیت ہبہ میں رجوع سے مانع ہے ۔ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے : ترجمہ؛’’ ہبہ کے وقت زوجیت (یعنی نکاح میں ہونا) رجوع سے مانع ہے ،لہٰذا اگر کسی عورت کو ہبہ کرکے بعد میں اس سے نکاح کیا ،تو ہبہ میں رجوع کرسکتا ہے اور اگر اپنی بیوی کو ہبہ کیا تو رجوع نہیں کرسکتا ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد8،ص:443،بیروت)‘‘۔

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ شوہر کی بری عادات اور اطوار کے سبب بیوی طلاق پر مُصر ہے ،ہمارے معاشرے میں عموماً اس طرح کے رشتوں میں عورت کے تحفظ کے لیے شوہر سے مکان یا جائیداد نام لکھوائی جاتی ہے ،ایسی صورت میں عورت کو اُس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر زوجین طلاق کے بجائے خلع کا طریقہ اختیار کریں اور عورت اپنا حق مہر معاف کردے یا بدلِ خلع کے طورپر کوئی اورمال یا مکان شوہر کو دیتی ہے ،تویہ جائز ہوگا۔

علامہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں:’’اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو خلع پر مطلقاً عوض لینا مکروہ ہے اور اگر عورت کی طرف سے ہو تو جتنا مہر میں دیا ہے، اُ س سے زیادہ لینا مکروہ ، پھر بھی اگر زیادہ لے لے تو قضاء ً جائز ہے، (بہارِ شریعت، ج:2،ص:193، حصہ : 8، مکتبۃ المدینہ،کراچی)‘‘۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین