• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم احمد نے اپنی طویل نظم ’’مشرق‘‘ میں شاعری کو نغمۂ روح، تخرقصِ جاں اور تخیل کی پرواز سے اور نوکری کوٹائپنگ کی آواز ، لمحۂ رائیگاں اور مشینی عمل سے تشبیہ دی۔ٹائپنگ کی کھٹا کھٹ کی جگہ اگرچہ اسکرین ایج کے سناٹوں اور سوشل میڈیا کے ہنگاموں نے لے لی مگر حصولِ معاش کے مسائل، ہوسِ زر میں اضافہ اور مادی ترقی کی دوڑ میں بھاگتے رہنے کا عمل ہماری روح کو زخمی کرتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ اخلاقی ، سماجی ، سیاسی اور روحانی بحران میں اضافہ ہوا اور رہی سہی کسر وبائی صورتِ حال نے پوری کردی۔

ایسے میں جب معمول کی زندگی کی بیزار کن تکرار ہمارے جذبوں اور احساس کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی ، شاعری نے نغمۂ روح اور رقصِ جاں بن کر ہماری روح کے زخموں پر مرہم رکھا کیوں کہ اچھی شاعری عالمِ تحیر میں لے جا کر اور فکر و احساس کے دریچے کھول کر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کا خواب دکھاتی ہے اور اور تنہائی، خوف، اداسی، بے گانگی اور شدید دکھ کی کیفیات میں ہمیں سہارا دیتی ہے ۔

ہمارے تخلیق کاروں نے انسانی معاشرے کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس سال بھی اردو کے بہت معتبر اور اہم شعرا کی کتابیں ہماری رفیق بنیں۔ گزرتے سال کا جائزہ (شاعری) کا جائزہ لیتے ہوئے تمام کتابوں کا ذکر اوراُن تک رسائی تو ممکن نہیں ،تاہم جن کتابوں تک رسائی ہوسکی۔ ان کا ایک اجمالی جائزہ نذر ِقارئین۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

تقدیسی ادب کے ضمن میں بھی کافی کام ہوا ۔ ’’قصیدۂ لامیہ‘‘ سے بے مثال شہرت حاصل کرنے والے کلاسیکی شاعر محسن کاکوروی کی نعتیہ کلیات ریاض ندیم نیازی نے مرتب کی ہے جو غزل کے علاوہ حمد و نعت بھی لکھتے رہے ہیں معنوی جہات اور خوب صورت شعری جمالیات کے حامل شاعر غلام محمد قاصر کا نعتیہ کلام بھی قلبی اور روحانی واردات اور سرشاری کی کیفیات سے بھرپور ہے جو ’’سرِ شاخِ یقیں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔قمر انجم کی نعتیہ کلیات ماہ نامہ حمد و نعت کے مدیر اور محقق شہزاد احمد نے مرتب کی ۔

مقصود علی شاہ کا تیسرا نعتیہ مجموعہ ’’احرامِ ثنا‘‘ نعتیہ دیوان کی صورت میں آیا ہے۔ ردیف کے آخری حرف کو حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کرنے کا التزام کرتے ہوئے ہائیہ آوازوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔تراکیب کے اختراع، تخلیقی ندرت ،شعری تاثر اور نعت کے تازہ تر مضامین کے سبب یہ مجموعہ نعتیہ ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے ۔معروف محقق ، تذکرہ نگار اور پُر گو شاعر منظرعارفی کے دو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ۔

’’ آپ اسرارِ ازل ‘‘ میں غزل اور موضوعاتی نظموں کی ہیئت میں نعتیں شامل ہیں اور ’’سلطانِ جہاں اور ‘‘ میں غالب کی غزلوں اور قصیدوں کی زمینوں میں نعتیں کہی گئی ہیں ۔ طاہر سلطانی کا تیسرا مجموعۂ حمد ’’پیش خدا ہوں حمد کا دیواں لیے ہوئے ‘‘ شائع ہوا۔ صفاتِ الہٰہیہ کا بیان،احساسِ طاعت و بندگی اور طلب و بخشش کے موضوعات روایتی اسلوب میں اس مجموعے کا حصہ ہیں ۔ح ’’مدحت کدہ‘‘( الیاس بابر اعوان ) اور ’’ نعت نما‘‘(خالد علیم ) کے علاوہ مد ، نعت، منقبت اور سلام پر مبنی کتابیں ’’مری جستجو مدینہ‘‘ (رانا خالد محمود قیصر) اور ’’توشۂ نور ‘‘(حافظ نور احمد قادری ) شائع ہوئیں ۔کلیات کی اشاعت کا رجحان بھی نمایاں رہا۔ 

اردو غزل کو اپنے شعری وفور سے مالا مال کرنے والے فراق گورکھ پوری کی شاعری کی مکمل اور معیاری کلیات شاعر، ناقد، محقق اور نامور اسکالر ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے بسیط مقدمے کے ساتھ مرتب کی جس میں فراق کی شاعری کے دیگر نسخوں سے مدد لیتے ہوئے صحتِ متن کا خیال رکھا گیا ہے۔ امر شاہد نے کلیاتِ حبیب جالب کی ترتیب و تہذیب بہت محنت اور یکسوئی کے ساتھ کی ہے جس میں چھے شعری مجموعوں کے علاوہ جالب کے آخری دور کی شاعری بھی ’’کلامِ تازہ‘‘ کے عنوان سے شامل ہو گئی ہے ۔قمر جلالوی کی شاعری خصوصاً غزل لطیف قلبی واردات،سچے جذبات ، خوب صورت احساسات اور سلیقۂ اظہار کی آئینہ دار ہے ۔چاروں شعری مجموعوں سمیت ان کا تمام تر کلام جن میں مرثیے، سلام، منقبت اور رباعیات شامل ہیں ،معروف شاعر اور مصنف شاعر علی شاعر نے مرتب کیا ہے ۔

اکبر معصوم کے دو شعری مجموعے ’’ اور کہاں تک جانا ہے‘‘ اور ’’ بے ساختہ‘‘ اپنے جداگانہ طرزِ احساس، ندرتِ خیال اور تخلیقی وفور کے لحاظ سے کئی شعری مجموعوں پر بھاری ہیں ۔بہت اچھے شاعر اور مترجم انعام ندیم اور غزل کے بہت عمدہ شاعر کاشف حسین غائر نے اُن کے پنجابی مجموعے سمیت ’’ گلِ معانی‘‘ کے نام سے اکبر معصوم کی کلیات خوب صورتی کے ساتھ ترتیب دی ہے ۔قمر رضا شہزاد کی غزل نے قاری پر حیرت کا ایک نیا جہان روشن کیا ہے ۔اس جہان کی تخلیق ان کے اپنے طرزِ احساس اور اسلوب کی انفرادیت کے سبب ممکن ہوئی ہے ۔رواں برس ان کی غزلوں کے مجموعوں ’’ہارا ہوا عشق‘‘، ’’پیاس بھرا مشکیزہ‘‘، ’’ یاد دہانی‘‘،’’خامشی‘‘، ’’ بارگاہ اور ’’ شش جہات‘‘ پر مشتمل ان کی کلیات ’’خاک زار‘‘ کے نام سے خوب صورت سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی جس میں خدا، انسان اور کائنات کے حوالے سے فکر کا سہ جہتی زاویہ نمایاں ہے ۔

اردو غزل ہر دور میں ہماری تہذیبی شناخت کا بنیادی حوالہ رہی ہے ۔جدید نظم کی مقبولیت کے اس دور میں بھی غزل نے عصری حسیت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہے۔وقت کی رفتار اور پیچیدہ تر ہوتی ہوئی زندگی نے انسانی شعور پر گہرا اثر ڈالا ہے اور نئے لہجے کے ساتھ نئی لفظیات بھی غزل میں داخل ہورہی ہیں ۔سیاسی اور سماجی جبر کی شدت نے غزل کے مقابلے میں نظم کو زیادہ متاثر کیا ہے ویسے بھی نظم میں اپنی بات کھل کر کہنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نظم ،خصوصاً غیر عروضی نظم میں انسان کے اجتماعی اور انفرادی دکھوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک نوع کی تلخی اور کھردرا پن بھی غیر محسوس طریقے سے شامل ہوتا جارہا ہے۔

اس سال بھی غزل اور نظم کے علاحدہ علاحدہ یا ملے جلے بے شمار مجموعے اشاعت کے مراحل سے گزرے جن میں سے چند کا ذکر ضروری ہے ۔معاصر عہد کی نابغہ شخصیت گلزار کی نظموں اور گیتوں کی شہرت ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور پوری دنیا میں پہنچی ہوئی ہے ۔تخلیقی ادب کی آفاقیت جغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہوتی اس لیے گلزار کے کلام کی خوشبو بھی تمام سرحدی حد بندیوں کو توڑتے ہوئے ہم تک پہنچ جاتی ہے ۔ 

اس سال بھی اُن کی دل پذیر نظموں کا مجموعہ’’ آئو لمحے چھیلیں‘‘ پاکستان سے پہلی بار شائع ہوا ہے ۔جدید اردو نظم کی کوئی بھی تاریخ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ رواں برس پاکستان سے اُن کے دو شعری مجموعے شایع ہوئے ۔پہلے مجموعے کا نام ہے ’’ روبرو مرزا غالب : ستیہ پال آنند‘‘ ۔یہ اپنی نوعیت کا بے حد منفرد شعری مجموعہ ہے ۔ 

ستیہ پال آنند نے مغربی اصولِ نقد سے استفادہ کرتے ہوئے مکالماتی رنگ میں غالب کے منتخب اشعار کو مکالماتی تشریح کے عمل سے گزار کر اُن کی تفہیم کی کوشش کی ہے ۔اس مکالمے میں مرزا غالب اور ستیہ پال آنند ایک دوسرے کے روبرو ہیں ۔ دوسرا مجموعہ ’’ مائی چھبیلاں اور دوسری نظم کہانیاں ‘‘ تیرہ نظم کہانیوں پر مشتمل ہے ۔افسانوی رنگ میں ڈھلی ہوئی یہ منظوم کہانیاں اور اُن کے کردار تاریخی اور علامتی معانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔نامور اور مقبول شاعر افتخار عارف کے اشعار میں ذاتی واردات اور عصری حسیت پورے فکری اور تہذیبی تسلسل اور شاعری کے فطری بہائو کے ساتھ قاری اور سامع کو اپنے حصار میں لیتی ہے ۔حال ہی میں شائع ہونے والا اُن کا چوتھا شعری مجموعہ ’’باغِ گل سرخ ‘‘ ہے جس میں مذہبی عقیدت سے مملو کلام بھی ہے اور غزلیں اور نظمیں بھی شامل ہیں۔ 

صاحبِ اسلوب شاعر جلیل عالی نے غزل ، نظم اور صنفِ نعت میں زبان کا خلاقانہ استعمال کرتے ہوئے اپنے لہجے کا انفراد قائم رکھا ہے۔ اُُن کا تازہ ترین شعری مجموعہ’’قلبیہ‘‘ گزرتے سال کے آخری ماہ میں شائع ہوا ہے جس میں اُن کی بہت عمدہ نظمیں اور طویل نظم ’’ قلبیہ‘‘ شامل ہے جو بارہ حصوں پر مشتمل ہے ، اس کا پہلا حصہ حمدیہ اور آخری حصہ نعتیہ ہے ۔عصری انتشار اور زندگی کی مختلف جہات کو بھی اس نظم کا حصہ بنایاگیا ہے ۔ممتاز غزل گو صابر ظفر کے ہاں تھکن کے آثار نمودار نہیں ہوئے اور اس سال بھی ان کے دو شعری مجموعے ’’آتشِ بیگانگی ‘‘ اور ’’ کھیتوں کی ریکھائوں میں ‘‘ اشاعت کے مرحلوں سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے ۔ 

اب ان کے شعری مجموعوں کی تعداد پینتالیس ہوگئی ہے۔’’آتشِ بیگانگی‘‘ میں بھی ان کا تخلیقی وفور بے مثال ہے ۔اس مجموعے میں آگ اور اس کے تلازمات کو ردیف کے طور پر برتا گیا ہے جن میں معنی کی بے شمار پرتیں روشن ہیں ۔’’کھیتوں کی ریکھائوں میں‘‘ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں دیہی زندگی اور کھیتی باڑی کی فضا کو منعکس کرتی ہوئی بہت سی نئی لفظیات بھی اردو غزل میں داخل ہوئی ہیں ۔ جمالیاتی ترفع کے حامل اور مقبول شاعر سلیم کوثر کی نئی کتاب بھی آئی۔صوری اور معنوی لحاظ سے اُن کا خوب صورت اور تازہ شعری مجموعہ ’’ خواب آتے ہوئے سنائی دیے‘‘بھی تخلیقی توانائی، باطنی کیفیات،خیال افروزی اور جذبے اور احساس کی اثر آفرینی سے متصف ہے اور اردو شاعری میں ایک عمدہ اضافہ ہے ۔


رفیع الدین راز نے کئی اصنافِ سخن میں فنی ہنر مندی کے جوہر دکھائے مگر اپنے شعری وجدان، فکری جہات اور خوب صورت لب و لہجے سے اردو غزل کو جن رنگوں سے آراستہ کیا ہے وہ قابلِ داد ہے ۔اُن کا تخلیقی شعور اجتماعی فکر کا آئینہ دار ہے۔ ان کا نیا مجموعہ ’’بر بساطِ غالب‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں غالب کی زمینوں پر دو سو غزلیں شامل ہیں ۔اس کتاب کا مقدمہ معتبر شاعر اور نقاد اکرم کنجاہی نے تحریر کیا ہے ۔خوب صورت سر ورق اور اسکیچز کے ساتھ نظم کے اہم شاعر سلیم شہزاد کی نئی کتاب ’’ کٹی پوروں سے بہتی نظمیں ‘‘ پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی اسی سال شائع ہوئی ہے ۔بصری ساخت، ہیئت اور بیانیہ کے لحاظ سے منفرد اور بھید بھری ان نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ تجرباتی نوعیت کا ہے جس کی ممتاز ناقدین نے بہت پذیرائی کی ہے ۔

اِن نظموں کا انتخاب اس عہد کے بہت ہی اہم نظم نگار ناقد، مدیر اور مترجم محمد سلیم الرحمٰن نے کیا ہے ۔ممتاز تخلیق کار غلام حسین ساجد کا ادبی سفر کئی عشروں پر محیط ہے ۔اُن کا تخلیقی و فور ہمیں فکر کی متنوع جہات، سے آشنا کراتے ہوئے ان دیکھی دنیائوں کی سیر بھی کراتا ہے اور زندگی کے طلسم کدے میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اُن کی غزلوں کا نیا مجموعہ ’’ گلِ سیمیا‘‘دیوان کی صورت میں اس سال اشاعت کے مراحل سے گزرا۔ا۔ ’’تنکے کا باطن‘‘کی اشاعت کے ً سولہ برس بعد پروین طاہر کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ’’ نیلگوں کائی‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔

پروین طاہر کا نسائی شعور فیمینزم کے روایتی تصور سے وابستہ نہیں ہے بلکہ روحانی انسلاک، صوفیانہ رنگ ، عشق کی ماورائیت ،زندگی اور زمانے کے اسرار ، عصری و سماجی شعور، دھیما مزاحمتی لہجہ اور ایک مثالی انسانی سماج کی تشکیل اُن کی نظموں کے مرکزی حوالے ہیں ۔نجمہ منصور اہنی نظموں اور اپنی شخصیت دونوں میں درویشانہ مزاج کی حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ایک گہری اداسی میں ملفوف جذبات اُن کی نظم کا ہالہ کیے رہتے ہیں لیکن نالہ و ماتم کی کیفیت پیدا نہیں کرتے۔اس سال اُن کی دو طویل نثری نظمیں ’’سانس کی آخری گرہ کھلنے تک ‘‘ اور ’’ ہم زاد سے مکالمہ‘‘ کتابی صورت میں اشاعت پذیر ہوئیں ۔ کتاب کا نام ہے ’’ سانس کی گرہ کھلتے ہی ‘‘(خدا، ماں اور موت سے مکالمہ )۔

یہ دونوں نظمیں ماں کی دائمی جدائی ،فنا کے دورانیے میں لمحہ لمحہ گزرتی قیامت ، شدید واردات قلبی اور ذاتی تجربے کو زبان دیتی ہوئی اور آنسوئوں میں گندھی ہوئی نظمیں ہیں اور نثری نظم کی روایت میں ایک عمدہ اضافہ ہیں ۔مشہور شاعر اور نقاد ڈاکٹر جواز جعفری کا تازہ ترین مجموعہ ’’چراغوں سے بھری گلیاں ‘‘ شائع ہوا ہے جو اساطیری نظموں پر مشتمل ہے ۔ غلام حسین ساجد جیسے اہم شاعر اور ناقد نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے ۔مشرق و مغرب کے اساطیری دائروں میں گھومتی ہوئی یہ نظمیں قدیم انسان کے عقائد، رسوم و رواج اور حیات و کائنات کے بارے میں اس کے تصورات کو اظہار میں لاتی ہیں ۔

کتاب کا سر ورق بہت دیدہ زیب ہے ۔سماجی شعور سے مالا مال اور انسانی حقوق کے لیے سرگرداں حارث خلیق کی نظمیں تاریخی ، عصری اور واقعاتی تناظر میں تحیّر ، منظر کشی اور کردار نگاری کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کی عام جہتوں کی آئینہ دار بھی ہیں ۔اُن کی نظموں اور غزلوں کا تازہ ترین مجموعہ ’’ حیراں سرِ بازار‘‘ بھی انھی خصوصیات کا مظہر ہے ۔ مشہور شاعر ولی عالم شاہین کا ساتواں شعری مجموعہ ’’ زر داغ ‘‘ بھی اسی سال اشاعت پذیر ہوا ۔ان کی نظمیں اور غزلیں گہرے مطالعے و مشاہدے ، وسعتِ فکر، عالمی صورت ِ حال کے تناظر میں انسانیت کو در پیش مسائل اور تخلیقی تازہ کاری کی عمدہ مثال ہیں۔

غزل اور نظم دونوں میں اپنی شناخت مستحکم کرنے والے یوسف خالد کا نیا شعری مجموعہ ’’ رنگ خوشبو مرا حوالہ ہے‘‘ نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے ۔ٖفکر کی تازگی، زندگی کی آئینہ داری،، لطافتِ خیال اور احساسِ جمال سے آراستہ ان کی شاعری اپنے فکری و فنی سفر میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ۔ظہور چوہان بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔اُن کی شاعری میں سبک روی کے ساتھ جذبات و کیفیات کو خوب صورت پیکروں میں تجسیم کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور انسانی فتح و شکست اور ہجرت و جدائی کا کرب بھی۔اُن کا پانچواں شعری مجموعہ ’’دنیا مری ہتھیلی پر رواں برس شائع ہوا ہے ۔

غزل اور نظم میں دلکش اسلوب کے حامل شاعر طاہر حنفی کا چوتھا شعری مجموعہ ’’یر غمالِ خاک‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں غزلیں ، نظمیں اور نثری نظمیں شامل ہیں ۔ذاتی تجربات، زندگی کے مشاہدات ،سماجی اور تہذیبی رویّے ، زندگی کے نشیب و فراز ، داخلی احساسات اور جذبے کی اثر آفرینی سلیقۂ اظہار کے ساتھ اُن کی شعری کائنات کا حصہ بنے ہیں ۔اقبال پیر زادہ کا دوسرا شعری مجموعہ ’’کاغذ پہ مہ و سال‘‘ حسنِ طباعت سے آراستہ ہونے کے سبب نظر نواز بھی ہے اور دل نواز اس لیے کہ اس کا دلکش اسلوب ، اس کا تازہ تر لہجہ، زبان و بیان کا حسن، ندرتِ خیال اور سلیقۂ اظہار قاری کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اس مجموعے کی لطافت سے حظ اٹھائے۔

شہرت طلبی کی دوڑ سے باہر رہنے والی برد بار اور سنجیدہ قلم کار سعدیہ حریم کا دوسرا شعری مجموعہ’’ آگہی کا اک لمحہ ‘‘سادگیٔ اظہار، جذبے اور احساس کی صداقت اور سماجی رویوں کا مظہر ہے ۔محسن اسرار حقیقی معنوں میں گوشہ نشیں شاعر ہیں لیکن اُن کی شاعری اپنی شعری جمالیات، فکری و فنی پختگی، الفاظ کے خلاقانہ استعمال، تہذیبی رچائو ، تازہ کاری اور انسانی آدرش کی عکاسی کی بنا پر یہ حق رکھتی ہے کہ نقدونظر کی صلاحیت رکھنے والے اسے توجہ سے پڑھیں ۔ان کی خوب صورت غزلوں کا نیا مجموعہ ’’ دل جیسی ہے دنیا بھی ‘‘اسی سال شائع ہوا ہے ۔

رہ گزارِ شعر پر ندرتِ خیال اور ندرتِ بیان کا سرمایہ لے کر استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے والے اور سہلِ ممتنع کے بہت اچھے شاعر سحر تاب رومانی کی خوب صورت غزلوں کا پانچواں مجموعہ ’’آتش دان میں خواب‘‘ شائع ہوگیا ہے ۔باہر کے سناٹوں ، اندر کی تنہائی اور زندگی کے جبر کو کاشف حسین غائر نے بڑی سادگی، تہ داریِ صداقتِ بیان اور سلیقۂ اظہار کے ساتھ اپنی غزل میں کچھ اس طرح سمویا ہے کہ روایتی دائرے میں رہتے ہوئے بھی غزل میں نئے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔اُن کا چوتھا شعری مجموعہ ’’آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا‘‘ ان کے شعری سفر کا ایک اور اہم پڑائو ہے ۔

شاعری کو لسانی کشف سمجھنے اور گہرا تخلیقی اور تنقیدی شعور رکھنے والے ڈاکٹر ثاقب ندیم کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ نروان گھڑی کا سپنا‘‘ ً اردو کے نظمیہ سرمائے میں ایک دل خوش کن اضافہ ہے کیوں کہ کیفیات کا بہائو، خوابوں کی شکست و ریخت کا ملال، پیچیدہ تر ہوتی ہوئی زندگی اور ان دیکھی دنیائوں اور ان کہے لفظوں کا طلسم اور احتجاج کا رنگ اُن کو نظم کے اچھے شاعروں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے ۔رانا خالد محمود کا چوتھا شعری مجموعہ ’’ہجرِ ناتمام‘‘روایتی موضوعات و لفظیات اور سادگیٔ بیان ، عام فہم خیالات اور رومانی احساسات کا مظہرہے۔ سید رضی محمد کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ بوڑھے برگد کی آخری گفتگو ‘‘ بھی شائع ہوا جس میں خارجی کیفیات، زمینی حقائق، سائنسی اور مذہبی رجحانات کو نظم کیا گیا ہے ۔شعیب افضال کا خوب صورت شعری مجموعہ ’’رفتار ‘‘ بھی اس سال شائع ہوا۔ 

رواں برس نامور افسانہ نگار اور نقاد حمید شاہد نے پانچ سو دو غزلیات اور چار ہزار دو سو بارہ اشعار پر محیط میر تقی میر کی شاعری کا ایک بہت عمدہ انتخاب ترتیب دیا ہے اور کتاب کے آخر میں نئی نسل کے قارئین کے لیے فرہنگِ میر بھی پیش کردی ہے تاکہ اس پُر جمال شاعری کی معنوی پرتیں کھل سکیں ۔طویل نظم ’’ علینہ‘‘ سے بے پناہ شہرت حاصل کرنے والے علی محمد فرشی مرد نظم نگاروں میں اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ کہ ’’علینہ ‘‘ کے علاوہ اُن کی کئی نظمیں تانیثی شعور کی حامل ہیں معروف شاعر و نقاد طارق ہاشمی نے حال ہی میں ’’علینہ‘‘ اور کچھ ایسی نظموں کا انتخاب کیا ہے جن میں مادرِ کائنات کے کردار سمیت عورت کے کردار کے کئی رنگ منعکس ہوتے ہیں ۔’’نیلی شال میں لپٹی دھند‘‘ ایسی ہی نظموں سے مزین انتخاب ہے ۔

عصرِ حاضر کی شاعرات میں عشرت آفریں اپنے خوب صورت ڈکشن، تازہ تر لفظیات، گہرے سماجی شعور اور نسائی طرزِ احساس کی بنا پر بہت نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ان کی شاعری کا انتخاب ’’ ایک دیا اور ایک پھول‘‘ کے نام سے ہندی رسم الخط میں ہندوستان سے شائع ہواہے ۔نئرواں برس کی پہلی سہ ماہی میں اکادمی ادبیات پاکستان نے وباکے موضوع پر شعرا کو ایسی تخلیقات پیش کرنے کی طرف متوجہ کیاجن میں خوف اور مایوسی کے بجائے امید اور عزم و حوصلے کی جھلک ہو ۔اس ضمن میں موصول ہونے والی شاعری کا ایک انتخاب معروف شاعر محقق اور ناقد ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے ’’خوف کے آس پاس‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے ۔

یہ انتخاب مناجات،غزل، نظم اور تراجم کے ابواب کے تحت تقسیم کیا گیا ہے نیز اردو کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں میں تخلیق کیا جانے والا کورونائی ادب بھی اس میں شامل ہے ۔رفیق سندیلوی کا نام جدید اردو نظم کا انتہائی معتبر حوالہ ہے لیکن اپنی شاعری کا آغاز انھوں نے غزل سے ہی کیا تھا ۔معروف شاعر دلاور علی آزر نے اس سال رفیق سندیلوی کی غزلوں کا ایک خوب صورت انتخاب ترتیب دیا ہے جو ’’ گلدان میں آنکھیں‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے ۔

کائناتی اسرار کی تلاش و جستجو، خوب صورت استعاراتی نظام، نئی شعریات اور لہجے کی انفرادیت کی بدولت ان کی غزلوں میں بھی ایک نیا جہانِ معنی آباد ہے ۔ فکری اور معنیاتی تنوع کے ساتھ سلیقۂ اظہار دلاور علی آزر غزلوں کی نمایاں صفت ہے ۔’’سورج مکھی کا پھول کے نام سے ان کی غزلوں کا انتخاب ہندوستان سے دیو ناگری رسم الخط میں اور پاکستان سے اردو میں اسی سال اشاعت کے مراحل سے گزرا۔

مختلف زبانوں میں تخلیق کیا جانے والا ادب جب تراجم کے ذریعے دوسری زبانوں میں پہنچتا ہے تو لفظ و معنی کی سطح پر زبانوں کے ارتقا کا وسیلہ بھی بنتا ہے اور تہذیب و ثقافت کی اثر پذیری کا ذریعہ بھی۔ترجمے کے باب میں اس سال ایک عظیم الشان کام چار ہزار چھے سو اشعار پر محیط شیخ فرید الدین عطار نیشا پوری کی مشہور زمانہ مثنوی ’’ منطق الطیر‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جو چار ہزار چھے سو اشعار پر محیط ہے ۔ ڈاکٹر محبوب کاشمیری نے بہت عرق ریزی کے ساتھ درست فارسی متن مع ترجمہ پیش کیا ہے جو انتہائی دیدہ زیب مصور ایڈیشن میں شائع ہوا ہے ۔

پروفیسر انور مسعود کی رائے اور ڈاکٹر سید تقی عابدی کے عمدہ مقدمے نے اس کتاب کے وقار میں مزید اضافہ کیا ہے ۔نسائی شعور کے موضوع پر نثر میں بہت عمدہ کام کرنے والی فاطمہ حسن کی نظمیں بھی گہرے تانیثی اور سماجی شعور کی حامل ہیں ۔سندھی اور اردو کی شاعرہ سندھو پیر زادہ نے اُن کی نظموں کا ایک مختصر انتخاب کرکے ان کا سندھی میں ترجمہ کیا ہے ۔عورت کے گرد کھنچا ہوا سماجی جبر کا حصار اور اُس کی بے توقیری کا اظہار حمیدہ شاہین کی نظموں میں جس شدتِ احساس اور جدتِ اسلوب کے ساتھ ہوا ہے وہ قابلِ داد ہے ۔

سندھی اور اردو زبان کے شاعر شاہ زمان بھنگر نے ’’حمیدہ شاہین کی نظمیں ‘‘ کے نام سے اُن کی نظموں کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے ۔ رحمت عزیز چترالی نے کھوار  زبان میں اپنے نعتیہ مجموعے ’’محمدﷺ‘‘ کامنظوم اردو ترجمہ ’’گلستانِ مصطفیٰ‘‘ کے نام سے کیا ہے ۔بچوں کے لیے شاعری اگرچہ ’’نونہال‘‘، ’’ساتھی‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’پھول‘‘ ،’’الف نگر ‘‘ اور دوسرے رسائل میں شائع ہوتی رہی ہے لیکن کتابی صورت میں کم از کم میرے علم صرف عارفہ ثمین طارق کی کتاب’’ نظم کہانی‘‘ آسکی۔بچوں کی شاعری کی طرف ہمارے شعرا کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

ظریفانہ شاعری میں اس سال بھی بہت زیادہ پیش رفت نظر نہیں آتی ۔ناموراور مقبول مزاح گو انور مسعود کے قطعات کی کلیات بڑے اہتمام سے شائع ہوئی ہے ۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی و سماجی مسائل، روزمرہ کی زندگی، نا انصافی اور سماجی نا ہمواری کی صورتِ حال کا احاطہ کرتے ہوئے انور مسعود کے یہ قطعات اس عہدِ ستم خیز کے احوالِ درد ناک پر تنقیدی اظہار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اطہر شاہ خاں عرف جیدی کا ظریفانہ شاعری میں بھی جواب نہیں تھا ۔بعد از مرگ اُن کا ظریفانہ کلام ’’ رنگِ جیدی‘‘ کے نام سے چند روز قبل ہی شائع ہوا ہے ۔ڈاکٹر بدر منیر کا شعری مجموعہ ’’خندہ زن‘‘لظافت و ظرافت سے بھرپور ہے ۔مزاحیہ شاعری میں چوں کہ خواتین کا حصہ برائے نام ہی رہا ہے اس لیے سعدیہ حریم کے شعری مجموعے ’’ ظرافت تمام شد ‘‘ کی اشاعت بھی خوش آئند ہے ۔

’’لالہ و گل‘‘ ( شاد بہٹوی) ، ’’رنگ ہائے وفا ‘‘ اور ’’ غزل سے لب ہیں ترے‘‘( غلام علی وفا)،’’انتظار کا موسم ‘‘( رشید خاں رشید)،’’،’’رقصم ‘‘ ( حسن فرزوق) ، ’’ الغم ‘‘ ( سرمد سروش)، ’’حاشیے پر لکھی نظمیں ‘‘( سلمان حیدر)،’’برہنہ دھوپ ‘‘( محبوب صابر) ،’’ اداس نظمیں ‘‘ ( پرویز مظفر) ،’’دعا کے رتھ پر ‘‘( صائمہ قمر)،’’غبارِ آئینہ ‘‘( خورشید ربانی ) اور ’’ غزل میرا عشق ‘‘ ( قادر بخش سومرو )بھی شائع ہوئیں ۔بہر حال کلیات،تراجم و انتخاب اور شعری مجموعوں کی اشاعت کی صورت میں کتاب سے عشق کے کئی مرحلے طے ہوئے ۔’’مکالمہ‘‘،’’تسطیر‘‘،’’ادب لطیف ‘‘آثار‘‘، تخلیق ‘‘ ،’’سنگت ‘‘ ،’’ورثہ ‘‘ اور دیگر ادبی رسائل نے اچھی شاعری کی ترسیل کو ممکن بنایاچودھویں عالمی کانفرنس ، ادبی میلوں اور مشاعروں کے ذریے اچھی شاعری سامعین تک پہنچی۔اردو کے نظمیہ اور غزلیہ سرمائے میں اضافہ ہوا ۔گویا کتاب کی ہم نشینی اختیار کرنے والے اور اس سے محبت کرنے والے آج بھی موجود ہیں ۔ 

کتاب کلچر کے زوال کے اس شور میں شاید میری بات سے اتفاق نہ کیا جائے کیوں کہ عام قاری کی کتاب سے دوری اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال بھی ایک تلخ حقیقت ہے لیکن کووڈ کی فضا میں اٹھتی ہوئی سرگوشیوں اور اندیشوں کے بھنور میں بھی شعر و ادب کی تخلیق اور کتاب کی اشاعت و ترسیل کا سلسلہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اس سال بھی شاعر کے بامِ تخیل سے اتر کر شاعری روح کے گھائو بھرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔

(لے آؤٹ آرٹسٹ : اسرار علی)

تازہ ترین