• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر تقی میر کا شمار ہمارے بڑے شعرا میں ہوتا ہے اور زمانی ترتیب سے دیکھا جائے تو اردو کے دوعظیم شعرا غالب اور اقبال سے پہلے میر تقی میر کا نام آتا ہے۔ بعض نقادوں نے میر کو اردو کا سب بڑا شاعر کہا ہے اور بعض نقادوں نے میر کو خداے سخن بھی کہا ہے۔ میر فہمی کے ضمن میں ہمیں اثر لکھنوی اور مولوی عبدالحق کا اور بعدازاںمحمد حسن عسکری کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ہمیں میر کی شاعرانہ عظمت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اس کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی چار جلدوں میں لکھی ہوئی معرکہ آرا تصنیف شعر ِشور انگیز سے میر فہمی کو پھر سے مہمیز دی۔

لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ اردو کے اس عظیم شاعر کے کلام کے مستند نسخوں کی دست یابی کا کیا عالم ہے تو مایوسی ہوگی کیونکہ میر کی اردو کلیا ت کا کوئی بھی نسخہ ایسا موجود نہیں ہے جسے کامل اور بے عیب کہا جاسکے ، خاص طور میرکا( بلکہ دیگر شعرا کا بھی ) جو کلام تجارتی ناشرین نے شائع کیا ہے اس کا معیار بالعموم پست ہے۔ لیکن بعض معروف محققین کے مرتبہ نسخے بھی اَسقام سے پاک نہیں ہیں، مثلاً کتابت کی کچھ اغلاط ایسی ہیں جو میر کے کلام میں خاصے عرصے سے چلی آرہی ہیں اور متعدد نسخوں میں موجود ہیں۔ 

اسی طرح بعض اشعار میر کے ایسے ہیں جو کسی نسخے میں موجود نہیں ہیں، مثال کے طور پر میر کا وہ مشہور قطعہ جو انھوں نے لکھنو ٔ پہنچ کر وہاں کے شعرا سے مخاطب ہوکر فی ا لبدیہ کہا تھا اور جو ’’کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ! ‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور جس کا ذکر محمد حسین آزاد نے آب ِ حیات میں بھی کیا، میر کی کلیات میں موجود نہیں ہے۔

بعض اشعار جو میر سے منسوب ہیں وہ ان کے نہیں ہیں لیکن بعض نسخوں شامل ہوگئے ہیں۔ بہرحال، کلیات ِ میر کے ایک مستند نسخے کو مرتب کرنے کی ضرورت موجود ہے اگرچہ اس کی تدوین و ترتیب کے لیے کئی قلمی نسخے دیکھنے ہوں گے جو مثلاً سالار جنگ لائبریری (حیدرآباد دکن)، انجمن ترقی ٔ اردو، رضا لائبریری (رام پور)، راجا صاحب محمود آباد کے ذاتی ذخیرے اور برطانیہ کے بعض ذخائر میں موجود ہیں ۔ ہاں !میر کے کلام کے کچھ بہتر نسخے مطبوعہ ضرور موجود ہیں ۔ آئیے ان میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں:

٭ کلکتہ ایڈیشن (۱۸۱۱ء)

میر کی وفات کے ایک سال بعد یعنی ۱۲۲۶ ہجری (۱۸۱۱ء) میں یہ نسخہ فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) سے شائع ہوا ۔عبادت بریلوی کے مطابق بلوم ہارٹ نے اپنی فہرست ِ مخطوطات میں اس ایڈیشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیپٹن ڈبلیو جے ٹیلر کی نگرانی میں یہ شائع ہوا تھا۔

اس کے مرتبین میں کاظم علی جوان کا نام نمایاں ہے۔ اسی کے ایڈیشن ۱۸۶۷ء اور ۱۸۷۶ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئے تھے۔ اس نسخے کو آج بھی چند مستند ترین نسخوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی کتابت کی بعض اغلاط موجود ہیں اوراس میں میر کا کچھ کلام موجود نہیں ہے۔ یہ ایک نادر اور کم یا ب کتاب ہے بلکہ قریب قریب نایاب ہے۔ البتہ اس کا ایک نسخہ انجمن ترقی ٔ اردو(کراچی) کی لائبریری میں دیکھنے کا راقم کو اتفاق ہوا ہے۔

٭ نَوَل کشور ایڈیشن (۱۸۶۸ء)

معروف ناشر اور طابع نول کشور کا اردو پر بڑا احسان ہے۔ جس زمانے میں بر عظیم پاک و ہند میں طباعت آسان نہ تھی اور پریس بھی کم تھے نول کشور نے اردو کی کتابیں بہت بڑی تعداد میں اپنے پریس سے شائع کیں جن میں سے بعض آج اہم یا واحد ماخذ کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ بصورت ِ دیگر یہ سارا ذخیرہ نیست و نابود ہوجاتا۔ 

اگرچہ ان کی شائع کی ہوئی بعض کتابوں میں کتابت کی اغلاط بہت ہیں اور ان کے شائع کردہ میر کی کلیات کے اس ایڈیشن میں بھی یہ خامی موجود ہے لیکن بہرحال کلیات ِ میر کے ایک مستند نسخے کی تیاری میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کمی یہ ہے کہ اس میں میر کے مرثیے شامل نہیں ہیں۔

٭آسی ایڈیشن (۱۹۴۰ء)

عبدالباری آسی کا مرتبہ یہ دیوان بھی نول کشور نے شائع کیا مگر اس میں خاصا اہتمام کیا گیا ہے۔ آسی نے بھی خاصی کاوش سے کام لیا ہے اورکلکتے کے ایڈیشن اوربعد کے بعض دیگر مطبوعہ نسخوں کے علاوہ متعدد قلمی نسخے سامنے رکھ کر اسے مکمل کیا، مثلاً انتخاب ِ مثنویات ِ میر(مرتبہ سر شاہ سلیمان) اور دو نامکمل قلمی نسخے بھی آسی کے پیش ِ نظر تھے۔ 

آسی نے اپنے طویل مقدمے (مرقومہ۱۹۴۰ء) میں میر کے حالات اور شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس سے پہلے کلیات ِ میر میں بعض شعری تخلیقات بغیر کسی خاص ترتیب کے درج تھیں آسی نے انھیں اصناف کے لحاظ سے ترتیب دیا ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت کے بعض اشعارکا ایک قلمی نسخے کی بنیاد پر اضافہ کیا۔ آخر میں مشکل اور متروک الفاظ کی فرہنگ مرتب کرکے شامل کی۔ غرض یہ ایک بہتر ایڈیشن ہے۔

٭عبادت ایڈیشن (۱۹۵۸ء)

عبادت بریلوی کے مرتبہ اس ایڈیشن میں میر کی شاعری اور حالات پر ایک طویل مقدمہ شامل ہے جو تقریباً سو (۱۰۰) صفحات پر مبنی ہے۔ عبادت صاحب نے میر کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ ددواوین کی مدد سے اسے مرتب کیا تھا۔ اس میں میر کا وہ کلام بھی موجود ہے جو بعض دوسرے مطبوعہ نسخوں میں نہیں تھا۔ اس میں موجود غیر مطبوعہ کلام میں میر کے بعض مرثیے اور تین مثنویاں بھی شامل ہیں ۔

٭عباسی ایڈیشن (۱۹۶۸ء)

ظلّ ِ عباس عباسی نے میر کی اردو کلیات مرتب کی اور اسے علمی مجلس (دہلی )نے ۱۹۶۸ء میں شائع کیا۔ بعد ازاں ترقیٔ اردو بیورو ،دہلی( جس کا نام اب قومی کونسل براے فروغ ِ اردو زبان ہوگیا ہے)، نے بھی ۱۹۸۳ء میں اسے شائع کیا۔ اس کی پہلی جلد غزلوں پر مشتمل تھی اور دوسری میں میر کا بقیہ کلام تھا۔ اس میں صحت ِ متن کا بہت اہتمام کیا گیا تھا لیکن اس کی بنیاد بڑی حد تک کلکتے کے ایڈیشن پر ہے۔

٭الہٰ آباد ایڈیشن (۱۹۷۲ء)

یہ الہٰ آباد سے شائع ہوا اوراسے مسیح الزماں نے مرتب کیاتھا۔ اس پر معروف نقاد احتشام حسین کا مقدمہ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں میر کی کچھ غیر مطبوعہ مثنویاں اور مرثیے بھی موجود ہیں۔ لیکن جمیل جالبی صاحب کا کہنا تھا کہ میر سے منسوب مرثیوں کا ازسرِ نو احتیاط سے جائزہ لیا جانا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں میر سے منسوب بعض مرثیے اصل میں ان کی تخلیق نہیں ہیں۔اس ایڈیشن میں املا کی بہت اغلاط ہیں اور میر کے بعض شعر اس میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔

٭کاشمیری ایڈیشن (۱۹۷۳ء)

ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کا کہنا تھا کہ میر کے کلام کا کلکتہ ایڈیشن نامکمل ہے چنانچہ اس کی بنیاد پر مرتب کیے گئے کلام ِ میر کے تمام نسخے نامکمل ہیں۔ لیکن انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کلکتہ ایڈیشن میں ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جو واقعی میر کا نہ ہو اور غلطی سے ان سے منسوب ہوگیا ہو۔ 

ڈاکٹر کاشمیری نے خود میر کا ایک دیوان مرتب کیا جس کی بنیاد راجا صاحب محمود آباد کے ذاتی کتب خانے میں موجود ایک نسخے پر رکھی اور یہ سری نگر سے ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ جس مخطوطے کی بنیاد پر اسے مرتب کیا گیا وہ نادر ہے اور اس کا سال ِ کتابت ۱۲۰۳ہجری یعنی ۸۹۔۱۷۸۸ء ہے، گویا یہ نسخہ میر کی زندگی میں کتابت کیا گیا جس کی تحقیقی اصولوں کے مطابق بہت اہمیت ہوتی ہے۔ البتہ ماہرین نے ڈاکٹر کاشمیری کی تدوین کو بوجوہ زیادہ اہمیت نہ دی۔

٭احمد محفوظ ایڈیشن (۰۷۔۲۰۰۳ء)

ظل ِعباس عباسی کے مرتبہ کلام ِ میر کو قومی کونسل براے فروغ ِ اردو زبان (دہلی) نے ۱۹۸۷ء میں دوبارہ شائع کردیا تھا لیکن پھر قومی کونسل نے طے کیا کہ میر کے کلام کو مکمل طور پر مرتب کرکے شائع کیا جائے ۔ چنانچہ احمد محفوظ نے ظل عباس عباسی کی مرتبہ جلد کو ،جومیر کے چھے دواین ِ غزلیات پر مبنی تھی، تصحیح و اضافے کے ساتھ ازسرِ نو مرتب کردیا جسے قومی کونسل (دہلی) نے ۲۰۰۳ء میں شائع کیا۔ کلیات میر مرتبہ احمد محفوظ کی دوسری جلد ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی۔ لیکن اس کی بنیاد میر کے کلام کے مطبوعہ نسخوں پر رکھی گئی ہے۔

٭فائق ایڈیشن

کلب ِ علی خاں فائق نے میر کی کلیات چھے (۶) (جی ہاں درست املا چھ نہیں، چَھے ہے ) جِلدوں میں مرتب کی اور اسے مجلس ِ ترقی ٔ ادب (لاہور) نے شائع کیا۔اس کی جلدیں طویل عرصے تک چھپتی رہیں۔ یہ ایک بہتر ایڈیشن خیال کیا جاتا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی