کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان کرکٹ بورڈ میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے قومی ٹیم کے جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والے فزیو تھراپسٹ کلف ڈیکن ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ21 لاکھ 15 ہزار910 روپے ہے۔ پی سی بی نے اپنے افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے سامنے پیش کردی ہیں۔ پی سی بی افسران بھاری تنخواہوں کے علاوہ لگژری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو پیش کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سی ای او وسیم خان 26لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ ہیڈ آف انٹرنیشنل پلیئرز ڈیولپمنٹ اور قومی ٹیم کے سابق عبوری ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کو 12 لاکھ77 ہزار 711 روپے دیے جاتے ہیں، چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر کو ماہانہ12 لاکھ 45 ہزار روپے ملتے ہیں۔ چیف سلیکٹر محمد وسیم ہر ماہ 10 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ آپریشنز ذاکرخان8 لاکھ 44 ہزار708 ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں 750 سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ چیف فنانشل آفیسر جاوید مرتضی 12 لاکھ 40 ہزار 417 روپے، آسٹریلیا سے آنے والے چیف میڈیکل افسر نجیب اللہ سومرو کی تنخواہ 12 لاکھ 15 ہزار روپے، ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن کی تنخواہ 13 لاکھ 59 ہزار651 روپے ہے۔ دستاویز کے مطابق ڈائریکٹر سکیورٹی آصف محمود کی تنخوا 650000 روپے ، سینئر جنرل منیجرآپریشنز اینڈ لاجسٹکس اسد مصطفی کی تنخواہ 6 لاکھ 13 ہزار 345 روپے، سینئر جنر ل منیجر فنانس عتیق رشید کی تنخواہ 6لاکھ روپے ہے۔ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی ماہانہ تنخواہ پانچ، پانچ لاکھ روپے ہے۔ ان میں محمد عبدالصبور، انور سلیم کاسی، بابر خان، نجیب صادق اور عبداللہ خرم نیازی شامل ہیں۔ بدھ کو ہونے والےاجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا کی عدم شرکت پر قائمہ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا اورکہا کہ رمیز کو اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی جس پر پی سی بی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ رمیز راجا، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ ملاقات کے باعث کراچی میں ہیں ، پی ایس ایل کی تیاریوں کے حوالے سے ملاقات اہم تھی جس پر کمیٹی چیئرمین نواب شیر وسیر نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ محترم ہیں لیکن چیئرمین پی سی بی کو کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہئے تھا۔ کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آڈٹ کے حوالے سے معاملات حل نہیں ہو سکے ، اگر پی سی بی کے آڈٹ معاملات حل نہ ہوے تو کیس ایف آئی اے کو بھیج دینگے۔