• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا دیر کو آنکھیں موند کر چشم تصور میں ان قافلوں کو دیکھیں، جو کئی کئی روز کا سفر طے کر کے منزل مقصود تک پہنچ پاتے۔ قافلے میں شامل بار بردار جانوروں کی پشت پر کبھی تو اگلی منزلوں پر جانے والے مسافر براجمان ہوتے اور کبھی تجارتی جنس ان پشتوں پر لدی ہوتیں، جو زرعی اجناس اور دستکاریوں پر مشتمل ہوتیں۔صدیوں پر محمول ان قافلوں کی آمدو رفت کے طور طریقوں سے ایک دلکش سی صورت گری وجود میں آچکی تھی۔

مدتوں سے چلی آئی ریت کے مطابق، اپنی منزل سے قافلے کی روانگی کے اعلان کا نقارہ بجتے ہی فقط چالیس پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر جانے والے اگلی منزلوں کے مسافروں کے اہل و عیال ان سے مصافحہ کرنے، بغلگیر ہونے کےلئے فوراً ہی پہنچ جاتے۔ راستے مین اپنا خیال کرنے اور خیریت سے پہنچ جانے کی کسی طور اطلاع کی خاص تاکید ہوتی۔

نہ خط پتر، نہ ٹیلیفون، ایسے میں ہر مسافر کا چہرہ الگ داستاں بیان کررہا ہوتا۔ کہیں مہینوں سالوں بعد اپنوں سے ملنے کی آرزو چہرے پر مچل رہی ہوتی، تو کہیں اپنوں سے جدائی کا دکھ عیاں ہوتا۔ان الوداعی کلمات اور مسافروں کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہی سالار قافلہ کی قیادت اور چاقچوبند محافظوں کی حفاظت میں یہ قافلہ اپنی منزل کیلئے روانہ ہو جاتا۔

سنسان راہوں پر جب یہ کارواں گزرتا تو قافلے کے جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز یں ویرانوں میں ایک جلترنگ سی بکھیر دیتیں۔

کراچی کی فضائیں صدیوں سے ان سروں، ان نظاروں سے آشنا رہیں، کہ ان دنوں دریائے سندھ گھارو سے ہوتا ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں گرتا تھا۔ یہ دریا کشمیر سے سمندر کے دہانے تک فعال آبی گذر گاہ تھی۔ دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے کے قریب گذری، ریڑھی اور ابراہیم حیدری جیسی سرگرم بندرگاہیں تھیں۔جن سے سکھر، شکار پور، بلوچستان، پنجاب، کشمیر و آس پاس کے علاقوں کی مشر وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے درمیان درآمدی و برآمدی تجارت ہوتی رہی۔

طویل ترین فاصلوں پر تجارتی سامان اور مسافروں کی آمدورفت کےلئے تو دریائے سندھ کی آبی گذرگاہ ہی کار آمد تھی، مگر کم فاصلوں کیلئے وہی بار بردار جانوروں کے قافلے اپنا رنگ بکھیرتے۔ منزلوں کا یہ سفر اسی طور کئی صدیوں سے رائج تھا، کہ اٹھارویں صدی اپنے جَلو میں کئی حیرتیں لئے چپکے چپکے اپنے پائوں پسارنے لگی۔ان ہی دنوں آہستگی کے ساتھ اور غیر محسوس طور پر ایک تبدیلی سر اٹھارہی تھی، ایسی تبدیلی جو کارواں کے پورے کینوس کے رنگوں کو چاٹنے کیلئے بڑھ رہی تھی۔

ہوا یوں کہ گرم پانی سے اٹھنے والی معمول کی بھاپ کو کسی غیر معمولی سوچ کے حامل انسان نے اسیر کر لیا اور پھر اس نے اپنی بے پناہ قوت کے زور پر معیشت، معاشرت اور ثقافت کا منظر نامہ ہی بدل دیا۔ کئی روایتیں و روزگار اپنا چولا بد لے تو کئی معدومیت سے دوچار ہونے لگےاور جب 1829 میں دنیا نے اس بھاپ کی قوت کو ریل گاڑی کی شکل میں پٹری پر دوڑتے دیکھا، تو یقین ہو چلا کہ یہ بھاپ کی گرمی کارواں کے حسن کو مکمل پگھلا کر ہی دم لے گی۔ اپنی ایجاد کے تقریباً تین دہائیوں بعد ہندوستان بھی نقل و حمل کے اس نئے اور تیز رفتار ذریعے سے آشنا ہونے جارہا تھا۔ایسے میں بندرگاہ کا حامل شہر، کراچی کیسے اس جدت سے دور رہ سکتا تھا۔1858 میں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کر دیا گیا۔

29 اپریل 1858؁ء کو کمشنر سندھ مسٹر بارٹلے فیریئر نے مجوزہ جگہ پر زمین کے ایک ٹکڑے پر کدال مار کر کراچی کینٹ سے کیماڑی تک ریلوے لائن بچھانے کا افتتاح کیا۔ کمشنر ہائوس سے افتتاح کے مقام تک کمشنر فیریئر اور اس تقریب کے دیگر شرکاء ایک جلوس کی شکل میں پہنچے تھے۔ فیریئر ایک خوبصورت بگھی میں سوار تھا، جس کے پیچھے دو چوبدار چل رہے تھے۔ دوسرے مقامی معززین گاڑیوں میں سوار تھے۔

گھوڑوں پر سوار انگریز اہلکاروں کے ساتھ یہ جلوس افتتاح کے مقام پر پہنچا تو ،توپوں سے اکیس گولے داغ کر جلوس کا استقبال کیا گیا۔

بعد ازاں فیریئر نے ریلوے لائن بچھانے کی تقریب کا آغاز کرتے ہوئے کہا، کہ کراچی شہر میں ریلوے کا آغاز ایسے منصوبے کی ابتداء ہے جس سے یہ شہر برصغیر میں ایک عظیم شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔

کراچی کینٹ سے کیماڑی تک ریلوے کی کامیاب سروس کے صرف ایک سال بعد کراچی کی دوسری اہم بندرگاہ گذری بندر تک بھی پٹریاں بچھادی گئیں۔

کراچی کی حدود میں ریلوے سروس کی بہتر کارکردگی نے حوصلہ دیا تو کراچی سے حیدرآباد تک 110 میل طویل ریلوے لائن بچھانے کا آغاز ہوا۔ اب کامیابی کے ساتھ یہ ریلوے لائن حیدرآباد سے آگے تک بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ،مگر کسی ایجاد و اختراع کو فوری توطور پر تسلیم نہ کرنے والے برصغیر کے بھولے بھالے لوگ خود بخود چلنے والے اس ’’دیو ‘‘ سے خوفزدہ تھے۔ ان کے نزدیک یہ گاڑی کسی ان دیکھی شیطانی قوت سے چل رہی ہے۔ خوف کے ساتھ اب نفرت کا عنصر بھی شامل ہوگیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزی فوج نہتے حریت پسندوں سے مقابلے کیلئے ریل کے ذریعے بھاری توپ خانے سمیت سرعت کے ساتھ مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی تھی۔

بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ مقامی لوگوں نے اس جدت کو تسلیم کر ہی لیا اور اس خود ساختہ عفریت سے دوستی کرلی۔ انجن سے آتی ایک ردھم بھری آواز، پیچھے بوگیوں کی لمبی قطار اور گاڑی کی کوکتی سیٹی کے تو وہ لوگ اسیر ہوہی گئے تھے لیکن ان کی دلچسپی کی ایک اور و جہ بھی تھی، اور وہ تھی، گاڑیوں کی آمد و روانگی میں وقت کی پابندی کا موثر نفاذ۔

وقت کی پابندی کا اطلاق اس قدر سخت تھا، کہ گاڑی جب پلیٹ فارم پر کچھ دیر کےلئے رکتی تو، بوگیوں میں بیت الخلاء کی سہولت نہ ہونے پر طویل فاصلوں کے مسافر فوراً اسٹیشن پر بنے بیت الخلاء کی طرف دوڑتے مگر اسٹیشن پر گاڑی کے رکنے کا مختصر دورانیہ ختم ہوتے ہی گاڑی وسل دیتی، گارڈ کی سبز جھنڈی لہراتی اور گاڑی پلیٹ فارم سے سرکنے لگتی۔ اس افرا تفری میں گاڑی کی طرف لپکتے مسافر کچھ پلیٹ فارم پر رہ جاتے اور کچھ اس جدوجہد میں زخمی ہوجاتے۔بعد میں حادثات کے بڑھنے پر گاڑی کے ڈبوں یں بیت الخلاء کی سہولت فراہم کر دی گئی۔

قیام پاکستان کے بعد اس قدر ڈسپلن کا حامل اور منفعت بخش ادارہ ورثے میں ملا، دیکھتے ہیں اب گزرے 74 سالوں میں ہم نے اسے مزید ترقی دی یا روایتی تنزلی اس کا مقدر بنی۔ دنیا بھر میں ریل گاڑیاں بلٹ ٹرینوں میں تبدیل ہوگئیں۔ دراصل چالیس پچاس عشروں سے وقت کو سرمائے کی طرح بچانے کے رجحان کے پیش نظر ذرائع نقل و حمل کی رفتار میں تیزی ضرور آئی۔ 

مگر پاکستان ریلوے اب تک اس کلیے کے الٹ ہی چل رہا ہے۔ گاڑیوں کی روانگی اور مقررہ مقامات تک پہنچنے میں تاخیر کے سبب مسافروں نے نجی ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی۔ یہی حال مال بردار ریل گاڑیوں کا ہے۔ طے شدہ دن اور وقت کے بجائے دنوں کی تاخیر نے کاروباری لوگوں کو نجی گڈز ٹرانسپورٹ کی طرف مائل کردیا۔

زمین پر نقل و حمل کے تیز رفتار ذرائع میں ریلوے ہی کو دنیا میں سبقت حاصل ہے۔ اپنی ایجاد کے وقت تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریل اب دنیا میں تین سو کلو میٹر اور اس سے بھی زیادہ رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ مگر پاکستان کی ریل کو 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ لیکن قدیم انجنوں، پرانی بوگیوں اور خستہ حال پٹریوں کے سبب ریلوے انجنوں کے ڈرائیور اس رفتار سے چلانے سے قاصر ہیں۔

آج ڈیڑھ صدی قبل کمشنر سندھ مسٹر بارٹلے فیریئر کے کہے ہوئے ان لفظوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، جو اس نے کراچی کینٹ اسٹیشن پر زمین کے ایک ٹکڑے پر کدال مار کر کیماڑی تک ریلوے لائن بچھانے کی تقریب میں ادا کئے تھے، کہ ’’ کراچی شہر میں ریلوے کا آغاز ایسے منصوبے کی ابتداء ہے، جس سے یہ شہر برصغیر میں ایک عظیم شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ ‘‘