زندگی کا سفر اُتار چڑھائو،کام یابی ، ناکامی، اُمیدوں ،حسرتوں اور خواہشات کے چکر میں آگے بڑھتا رہتا ہے ،وقت دکھائی تو نہیں دیتا ،مگر پھر بھی بہت کچھ دکھا دیتا ہے ۔اس طر ح زندگی کے کئی سال گز رجاتے ہیں ۔ہر سال ،سال نو کے آغاز پر دیگر کی طرح خواتین بھی اپنے اپنے شعبوں اور پرو فیشن کے حوالے سے منصوبہ بند ی ،تاب ناک مستقبل کی اُمیدیں ،آگے بڑھنے کی خواہشات ،ماضی کی غلطیوں سے سبق اورناکامی کی وجوہات پر غور یقیناً کرتی ہوں گی ۔
مستقبل میں ترقی کی راہوں میں قدم جمانے کے لیے منصوبے بنانا ،اپنے مقصد کا تعین کرنا ،اپنے تجربات کو مزید بہتر کرنا ان سب کے حوالے بھی سوچتی ہوں گی ۔عمریں لگیں یہ کہتے ہوئے ،ہمیں حقوق دو لیکن ملا کیا ؟ آج جب ہم 2022 ء میں قدم رکھ چکے ہیں۔ آپ سب نے سوچا ہوگا کہ امسال خواتین کے لیے بہت کار گر ثابت ہوگا ،شاید اس سال وہ ہوجائے جو خواتین کے لیے ابھی تک نہیں ہوا ہو ۔ہوسکتا ہے اس دفعہ خواتین پرظلم و تشدد کے بادل چھٹ جائیں ۔
یہ سال خواتین کے لیے خوش آئند ثابت ہو ۔کسی شعبے میں خواتین کا کوٹہ بڑھادیا جائے ،ان کے لیے ترقی کی منزلیں آسان کردی جائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امسال خواتین کے لیے کیا کچھ اچھاہونے کی اُمید ہے ،اُنہیں مکمل حقوق ملیں گے ،بہتری کی صورت ممکن ہے؟ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف چند خواتین نےہمارے سوال کے جواب میں کیا کہا،اُن کے خیالات آپ بھی پڑھیں۔
جسٹس(ر)ماجدہ رضوی
(چیئر پرسن ،سندھ ہیومن رائٹس کمیشن )
قانون کی دنیا میں مشہور ،ماجدہ رضوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہاکہ، مجھے لگتا ہے کہ ’’اس سال خواتین مزید آگے بڑھیں گی اور ترقی بھی کریں گی ،جب کہ ان کے لیے بہت زیادہ خطرات بھی ہیں ۔مثلاً افغانستان میں خواتین کے ساتھ کیا ہورہا ہے ، یہ ہم سب کو پتا ہے ،اس کو دیکھتے ہوئے تھوڑا ڈر بھی لگتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہم پاکستانی خواتین کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہنا چاہیے ۔جیسا کہ منواتی رہی ہیں ۔ڈر خوف کو پیچھے رکھ کر آگے بڑھتی رہیں ۔ مجے اُمید ہے 2022 ء میں خواتین بہت کچھ کریں گی۔ بس وہ آگے بڑھیں ،تعلیم پر توجہ دیں، پروفیشنلیزم پر زور دیں ،ہمت اور بہادری کے ساتھ ترقی کی راہیںہموار کرتی رہیں۔
عارفہ سیدہ زہرہ
(ماہرِتعلیم ،ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ )
انسانی حقوق کا معاملہ فال نکالنے اور زائچہ بنانے کا معاملہ نہیں ہے۔ اس کو ایک سنجیدہ فکر کی ضرورت ہے جو زندگی کے تقاضوں اور اس کی ضرورتوں کا احاطہ کر سکے اور یک سمتی حد پرستی سے بلند ہوکر اخلاقی اور قانونی بنیادوں پر انسانی حقوق کی پاسداری کرسکے ۔میرے نزدیک دین اخلاق اور قانون دونوں کی پاسداری کا حکم دیتاہے۔ اسلام میں کمتر اور برتر کی تخصیص نہیں ۔
انسان کی تکریم اسلام کی بنیادی فکر ہے۔ اس معاملہ میں تعصب اور شخصی تشریح اور ترجیحات کی گنجائش نہیں ہے۔ ابھی تک تو ایسا نہیں ہوسکا۔ شکایت کرنے والے ،صحیح سمت کی نشاندہی اور اس کے حصول کی اہمیت کو مسلسل واضح کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ہمارے یہاں عمل نہیں ہوتا رد عمل ہوتاہے، جس معاشرے میں مکالمہ کی اجازت نہ ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا چلا آرہا ہے۔
اس سے ضد اور نفرت جنم لیتی ہے اور انسانی حقوق ضد اور نفرت کی بنیاد پر کبھی فعال نہیں ہوسکتے۔ حقیقت اور حق سے انکار سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ عورتوں کے حقوق بھی اتنے ہی انسانی ہیں جتنے اور انسانی حقوق ہوتے ہیں۔اس سمت کو اگر سیاسی فکر میں گنجائش مل سکے تو کچھ تھوڑی بہت صورت نکل سکتی ہے۔ وگرنہ کشاکش ہی 2022 کا بھی مقدر ہوسکتی ہے اور کشاکش میں حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
مہتاب اکبر راشدی
(سابقہ پارلیمینٹیرین، بیوروکریٹ ، استاد)
خواتین کے اپنے حقوق ، حق کی تحریکیں اور کوششیں امسال بھی جاری رہیں گی۔ اگر میں پاکستان کی بات کرو تو امسال ملک کو آزاد ہوئے 75سال ہوجائیں گے لیکن افسوس یہ معاشرہ ابھی تک یہ طے نہیں کر سکا کہ اس معاشرے میں خواتین کا مقام کیا ہے ،جس معاشرے میں اس طرح کے مباحثے چل رہے ہوں تو وہاں کیا کہا جاسکتا ہے۔
میرے خیال میں 2022ء بھی گزشتہ سالوں کی طر ح خواتین کے لیے جدوجہد کا سال ہی ہو گا ۔بس میری یہ خواہش ہے کہ ہم جو عجیب و غریب نعروں میں اُلجھ جاتے ہیں وہ نہ کریں ،کیوں کہ اس کے چکر میں ہمارا جو اصل مقصد ہے وہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے ،خواتین کے جن حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے اس پر تو بات ہی نہیں کی جاتی۔ ایک نعرے کو پکڑ کر کئی کئی سال تک بحث چلتی رہتی ہے ۔
ہمیں ان چیزوں کو چھوڑ کر حقیقی مسائل پر توجہ دینی چاہیے ۔مثلا ً:خواتین کی تعلیم کو یقینی بنا ئیں ،سرکاری اسکولز کے معیار کو یقینی بنائیں ،خواتین کے حقوق کے جو قوانین اسمبلیوں میں پاس کیے گئے ہیں ،ان پر عمل در آمدکیا جائے خاص طور پر سندھ اسمبلی میں جو قوانین ہیں ان کو یقینی بنائیں ۔
یہ سال بھی خواتین کے لیے آسان سال نہیں ہوگا مجھے تو لگتا ہے ہر روز ایک نہ ایک خاتون کا قتل ہونا لازم ہوگیا ہے ۔اور اس پر قانون نافذ کرنے والوں کا رویہّ ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔اس طر ح متعدد کیسز سالوں عدالتوں میں لٹکتے رہتے ہیں ۔مجرم کو کوئی سز انہیں دی جاتی۔ سارے ثبوت سامنے موجود ہوتے ہیں لیکن سزا سنانے میں صدیاں گز رجاتی ہیں ۔اور اب یہ سال بھی خواتین کے لیے اس طر ح ظلم وستم اور ناانصافیوں کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے ہی گزرے گا ۔
خوش بخت شجاعت
(سابق ممبرنیشنل اسمبلی ،سینیٹر،پاکستان ٹیلی ویژن اینکر)
میرے خیال میں اس سال بھی خواتین کے لیے کوئی فرق نہیں آئے گا وہی کچھ ہوگا جو اب تک ہوتا آیا ہے ،بس خواتین کوخود سے اُٹھ کر اپنے حقوق کے لیے آواز مزید بلند کرنی پڑے گی ،آگے بڑھنا پڑے گا ۔سال کوئی بھی ہوخواتین کے لیے زندگی وہی ہے جو ان کے پاس تھی اور ہے لیکن ہمار ی خواتین کو اس بات کا احساس ہوتا جارہا ہے کہ ان کو خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
آج کی خواتین با ہمت اور بہادر ہیں اگر ہم چند سال پہلے کی خواتین کا مقابلہ 2022 ء کی خواتین سے کریں تو ہمیں واضح فرق نظر آئے گا کہ کیسے خواتین نے خود سے ہمت کرکے اپنے آپ کو کھڑا کیا ،اپنے حق کے لیے آواز بلندکی اور آگے بھی کرتی رہیں گی ۔ان کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا ،وہ خود اپنے لیے جدوجہد کرکے اپنا مقام حاصل کررہی ہیں ، ہر شعبے میں خود کو منوا رہی ہیں ۔اپنی صلا حیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں ۔میرے خیال میں ہماری خواتین متحرک ،فال اور پُر عزم ہیں ۔
مجھے سمجھ نہیں آتا ہمارے معاشرے میں خواتین کو اتنا ہوا کیو ں بنا یا جاتا ہے ،شاید لوگوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ترقی کی راہ میں یہ ہم سے آگے نہ نکل جائیں ۔خواتین نے اپنی راہیں خود بنائی ہیں ،اپنی راہ میں موجود کانٹے خود چنے ہیں ،اپنی لہولہان پیروں سے آگے بڑھنے کا حوصلہ خود پیدا کیا ۔2022 ء میں بھی اسی طرح خواتین کے لیے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع موجود ہوں گے ۔میں اس سال بھی خواتین کو بہ ہمت ،حوصلہ مند اور پُر عزم دیکھ رہی ہوں ، وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو پہچان کر آگے بڑھ رہی ہیں ۔
انیس ہارون
(نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس )
مسائل تو بے پنا ہ ہیں گو کہ بہت سارے قوانین خواتین کی بہتری اور ان کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے بنائے بھی جا چکے ہیں، مگر ان کا نفاذ بہتر نہیں بنایا جا سکا جو کہ ریاست کا کام ہے۔ این جی اوز اور دیگر ادارے لابی کر سکتے ہیں ،مشورے دیتے ہیں تجاویز پیش کرتے ہیں یہاں تک کہ ماہرین قانونی مسودے بھی بنا کر دیتے ہیں ،قانون بن بھی جاتے ہیں، مگر عمل نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے خواتین کو گھریلو تشدد سے لے کر ہرا سیمنٹ تک کے مسائل سے گذرنا پڑتا ہے۔ 2022ء میں اگر خواتین کے حقوق کے لئے آگاہی کو فروغ دیا جائے اور ہیومن رائٹس کی تعلیم بچوں کے نصاب میں شامل کیا جائے تو خواتین اور معاشرے کے دیگر طبقے اپنے حقوق سے واقف ہو جائیں اور ساتھ ہی ریاست قوانین کا نفاذ سختی سے کرائے تو یقیناً بہتر سال ثابت ہو سکتا ہے۔
شرمیلا فاروقی
(ایم پی اے وصول کنندہ آف ستارہ امتیاز)
2022 ء میں بھی خواتین کے لیے کچھ خاص نہیں ہوگا ،جدوجہد کا جو سلسلہ جاری ہے وہ امسال بھی رہے گا ۔چند روز قبل میں پڑھ رہی تھی کہ کچھ خواتین نے اپنے والدکے انتقال کے بعد وراثت کا کیس کیا تھا ،جس کا فیصلہ ان کو 38 سال بعد ملا ۔ اب آپ سوچیں ، جس معاشرے میں بنیادی حقوق کا یہ حال ہو ،وہاں دوسرے حقوق کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔جب اس طر ح کی چیزیں سامنے آتی ہیں تو حیرت ،دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ آج بھی خواتین کےساتھ اتنی زیادہ ناانصافی ہوتی ہے کہ جو حقوق اس کو مذہب نے دئیے ہیں، ان کو حاصل کرنے میں بھی اس کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بالکل اسی طر ح رواں سال بھی کچھ خاص نہیں ہو گا۔اسی طر ح ساری خواتین محنت کرتی رہیں گی ،اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہیں گی ۔لیکن کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی ۔ اگر میں سیاسی پہلو سے بھی بات کروں تو اس میں بھی خواتین کی وہی روایتی پوزیشن اور وہی روایتی صورت ِحال رہے گی۔ بدقسمتی سے سب کچھ پہلے جیسا رہے گا۔ میری دعا ہے کہ یہ سال سب کے لیے امن ،سلامتی اور صحت وتندرستی والا ہو ۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی
سابق ممبر پارلیمنٹ ،اسلامی نظر یاتی کونسل
کیا ہوگا یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن میری دعا ہے کہ خواتین کے لیے یہ سال امن، سلامتی اور تحفظ کا ہو، انہیں ان کے بنیادی حقوق ملیں ، جو ناانصافیاں ان کے ساتھ اب تک ہوتی آئی ہیں، ان پر قابو پاسکیں۔ حالات تو ویسے بہت مایوس کن ہیں لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ اُمید کے دئیے جلانے اور جگنو بکھرنے کی ضرورت ہے ۔
بشری انصاری، اداکارہ
2022 میں کیا ہو گا یہ کہنا تو بہت مشکل ہے ،بس اب تو خواہش اور دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ نیا سال ہر لحاظ سے خواتین کے لیے اچھا ہو۔ جو جومسائل وہ اب تک برداشت کرتی آئی ہیں جو ظلم و ستم ان پر ہوئی ہیں وہ اب مزید نہ ہوں ۔گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی ہو ۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم انسانیت اور اخلاقیات پر غور کریں ،جس کی ہمارے معاشرے میں اشد کمی ہے، ہمیں ایسی قوانین بنانے چاہیں جو سخت ہوں اور ان پر عمل در آمد بھی کیا جائے ۔ سزا عبرت ناک دی جائے ۔
اس عمل سے کئی مسائل خود بہ خود ختم ہو جائیں گے ۔اس سال خواتین پر ظلم وتشدد کرنے والوں کے لیے سخت قوانین بنائیں جائیں ۔ سوشل میڈیا پر تھوڑا کنٹرول کیا جائے ،اس کے ذریعے معاشرے میں مزید برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نسل ِنو کو بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا ۔اب وقت آگیا ہے کہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور مستقبل کو بہتر بنائیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو ہوش آتا ہے ۔بس دعاگو ہوں کہ یہ سال نہ صرف خواتین کے لیے بلکہ سب کے لیے بہت اچھا ثابت ہو ۔