• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر۔ لیسٹر
چند روز قبل مسلم دنیا کے مایہ ناز صحافی اور ممتاز مفکر حاشر فاروقی لندن میں وفات پا گئے، وہ معروف جریدے امپکٹ انٹرنیشنل کے مدیر تھے جو لندن سے شائع ہوتا تھا، مرحوم بھارت کے صوبہ اتر پردیش میں جنوری 1930 میں پیدا ہوئے، انہوں نے طالب علمی دور میں تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پاکستان کے لیے ہجرت کر کے کراچی آبسے، تعلیمی میدان میں وہ پیش پیش تھے،60 کی دھائی میں وہ حصولِ تعلیم کے لیے برطانیہ آگئے، حاشر فاروقی مرحوم کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا دل امتِ مسلمہ کے لیے دھڑکتا تھا جو امتِ مسلمہ کو بامِ عروج تک دیکھنا چاہتے تھے، انہوں نے اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اگرچہ وہ حصولِ تعلیم کے لیے برطانیہ آئے تھے لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ کرنے کا اصل کام مسلمانوں کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ذہنی غلامی اور پستی سے نجات دلانا ہے اور یہ کام ایک آزاد ملک میں رہ کر ہی ہو سکتا ہے کیونکہ مسلم ممالک آزاد ہونے کے باوجود بھی ابھی تک آمریت اور ملوکیت میں شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، ان ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ہر وقت آمریت کے سائے مسلط رہتے ہیں، اس کا بہترین حل برطانیہ میں بیٹھ کر پوری مسلم دنیا کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کو ہدف بنا کر کام کرنا ہے، نیز یورپ میں آنے والے طلبہ و طالبات کی صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے وطن واپس جا کر اپنی قوم کی صحیح رہنمائی کریں، اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے امپیکٹ انٹرنیشنل کے نام سے ایک 15روزہ میگزین شائع کرنا شروع کیا جس کی اشاعت چند ماہ میں ہی کئی ہزار تک پہنچ گئی اور یہ 80 سے زیادہ ممالک میں مطالعہ کیا جانے والا جریدہ بن گیا، قارئین اس کا ذوق و شوق سے انتظار کرتے تھے، کئی مشہور ہفت روزے اور ماہنامے اس کے مضامین ترجمہ کر کے شائع کرتے تھے، یہ ایک باوقار اور معیاری جریدہ تھا جس کا آغاز 1971 میں کیا گیا اور تقریبا 40 برس تک امتِ مسلمہ کی خدمت کرتا رہا جس میں مسلم ممالک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے متعلق خبریں اور تبصرے شائع ہوتے تھے، علمی اور سیاسی شخصیات کے انٹرویو، مضامین اور تجزیئے بھی ہوتے اگرچہ اس پر کسی ڈکٹیٹر کا زور نہیں چلتا تھا لیکن کبھی کبھار وہ اس جریدے کی اپنے ممالک میں داخلے پر پابندی بھی لگا دیتے تھے جس سے وہ اپنی رسوائی کا سبب خود پیدا کردیتے تھے، حاشر فاروقی عملی طور پر بھی مسلمانوں کو منظم کرتے رہے، مثلا برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کی رہنمائی کرتے رہے، اسی زمانے میں مسلم طلبہ کی تنظیم فوسس معرضِ وجود میں آئی، حاشر فاروقی نے ان کی بھر پور معاونت کی، اس تنظیم سے وابستہ کئی طلبہ اپنے ممالک میں واپس جا کر نمایاں پوزیشن پر فائز ہوئے، مرحوم یوکے اسلامک مشن کے بانی رکن بھی تھے، اسی طرح جب سلمان رشدی نے مسلمانوں کی دل آزاری کی تو انہوں نے سر اقبال سکرانی، ڈاکٹر مناظر احسن، چوہدری معین الدین اور ڈاکٹر جعفر قریشی سمیت کئی نمایاں شخصیات کو یو کے ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم پر منظم کیا اور مسلمانوں کا موقف پوری شدومد سے پیش کیا، حکومتی عہدے داروں سے مزاکرات کر کے انہیں مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور بعد ازاں ایک بہت بڑے مظاہرے کا اہتمام بھی کیا کچھ عرصہ بعد یہی کمیٹی ایک نئی اور بڑی تنظیم ’’مسلم کونسل آف برٹین‘‘ کی صورت میں ڈھل گئی تاکہ تمام مسلم تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جاسکے۔ حاشر فاروقی مرحوم ایم سی بی میں بھی متحرک رہے، وہ علمی اور تعلیمی ادارہ اسلامک فاونڈیشن لیسٹر اور مسلم ایڈ کے بھی ٹرسٹی تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی اور تنظیمی ضروریات کے لیے کئی ممالک کے دورے کیے اور نامور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کے انٹرویو شائع کیے جن میں شاہ فیصل، یاسر عرفات، امام خمینی، جنرل ضیاءالحق، مہاتیر محمد، حسن ترابی، انور ابراہیم، بن بیلا، مہدی بازرگان سمیت درجنوں سربراہ مملکت اور بلند پایہ شخصیات شامل ہیں۔ ان کی طبیعت میں بڑی عاجزی اور انکساری تھی، وہ اعلیٰ اخلاقی صفات کے مالک تھے، ہر چھوٹے اور بڑے سے بڑے اخلاق سے ملتے تھے،مقصد سے بے پناہ لگن تھی، دیکھنے میں نحیف لیکن مضبوط قوتِ ارادی کے مالک تھے، دوبرس قبل جب میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سیرت النبیﷺ پر ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح ایک کتاب بھارتی مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات پر بھی لکھنے کا ارادہ تھا، لیکن زندگی نے انہیں ان کاموں کی مہلت نہیں دی، وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے، انہوں نے 92برس کی عمر پائی، اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین۔
یورپ سے سے مزید