2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال، عدالتِ عظمیٰ کے نئے چیف جسٹس کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔پاکستان کی عدلیہ کو اس وقت جو چیلنج درپیش ہیں ان سے ہر ذی شعور پاکستانی آگاہ ہے۔
ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہماری عدالتوں نے ہمیشہ آئین شکن افراد کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کی توقعات سے بھی بڑھ کر انہیں عطا کیا ۔نظریہ ضرورت کی ایجاد سے لے کر مختلف مارشل لاؤں کو سند جواز بخشنے تک کتنے ہی ایسے اقدامات ہیں جو گنوائے جا سکتے ہیں۔
یوں تو عدالت عظمیٰ کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ صرف منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھا سکتی ہے بلکہ جلاوطنی کے علاوہ تاحیات نااہل بھی کر سکتی ہے لیکن عام آدمی کی توقعات یہاں سے کم ہی پوری ہوتی ہیں۔
یہاں سے ایک طرف تو راؤ انوار سرخرو ہو کر نکلتا ہے تو دوسری طرف غریب آدمی کو انصاف تب ملتا ہے جب اس کو قبر میں اترے کئی سال گزر چکے ہوتے ہیں۔یہاں کتنے ہی شاہ رخ جتوئی انصاف کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور عام آدمی انصاف کی تلاش میں سنگ مرمر سے بنی سفید عمارت کو حسرت سے دیکھتے ہوئے جان سے گزر جاتا ہے ۔
ایک طرف تو عدلیہ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے تو دوسری طرف عدلیہ کے معزز ارکین اسکولوں کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں۔ نومبر 2021میں سینیٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت 21لاکھ 59ہزار 655زیر التوا مقدمات ہیں۔
اور ملک بھرکی ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججز کی ایک ہزار 48اسامیاں تعیناتیوں کی منتظر ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں 51ہزار 138مقدمات، وفاقی شرعی عدالت میں 178مقدمات، لاہور ہائی کورٹ میں 1لاکھ 93ہزار 30مقدمات پنجاب کی ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس میں 13لاکھ 45ہزار 632سول اور فیملی مقدمات،سندھ ہائی کورٹ میں 83ہزار 150مقدمات، سندھ کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں مقدمات کی تعداد1لاکھ 15ہزار 296ہے۔ پشاور ہائی کوررٹ میں، 42ہزار 180 مقدمات، خیبر پختونخوا کی سیشن اور ضلعی عدالتوں میں چلنے والے کیسز کی تعداد اس وقت 2لاکھ 40ہزار 436، بلوچستان ہائی کورٹ میں، 4ہزار 663 مقدمات، بلوچستان کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 15ہزار 729کیسز فیصلے کے منتظر ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16ہزار 374 مقدمات زیر التوا ہیں، جب کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں 51ہزار 849کیسز زیرِ التوا ہیں۔
زیر التوا مقدمات کی بھیانک تعداد دیکھتے ہوئے نئے چیف جسٹس کا سب پہلا مقصد ان مقدمات کو یکسو کرنا ہونا چاہئے اور ایسا انصاف ہونا چاہئے جو نظر بھی آئے۔اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے معاملات بھی محل نظر ہیں۔
عدلیہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جہاں پر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کیلئے نہ تو سرے سے کوئی امتحان ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ضابطہ کار متعین ہے۔
پاکستان کی سول سروس میں اگر کوئی شخص گریڈ 17 میں ملازمت اختیار کرتا ہے تو اسکے بعد نت نئے کورسز کےذریعے اسکی شخصیت اور نفسیات میں ایسی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں جو اسکے فرائض کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
یہاں ترقی کا معیار اتنا کڑا ہے کہ سینکڑوں افسران کے بیج میں سے چند ایک ہی گریڈ 22 تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس دوران میں تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔پاک فوج میں بطور کپتان سروس شروع کرنے والا افسر ہر درجہ کی ترقی کیلئے متعدد کورسز کرتا ہے۔
وار کورس،اسٹاف کالج کورس،بیرون ملک تعلیم کے کڑے مراحل سے گزر کر اگلے درجہ میں ترقی کرتاہے اس کے باوجود چند لوگ ہی جنرل کے اسٹار لگوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔لیکن عدلیہ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
کوئی بھی وکیل جس کی عمر ایک مخصوص حد کو پہنچ جائے اور وکالت میں مخصوص سال گزار لے تو وہ اعلیٰ عدلیہ کیلئے اہل قرار پاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے صرف مخصوص چیمبر کو ہی نوازا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار کا سب سے بڑا متاثرہ فریق وہ سول جج صاحبان ہیں جو محنت اور طویل امتحانات سے گزرنے کے بعد ماتحت عدلیہ کا حصہ بنتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی ایسا سول جج ہو جو ہائی کورٹ کے منصب تک پہنچا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ماتحت عدلیہ کا حصہ بننے والا نوجوان سول جج کبھی اپنی ترقی کا تصور نہیں کر سکتا۔اس پر مستزاد یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے بعض اراکین کی جانب سے ان کی تذلیل بھی جاتی ہے۔پاکستان کی ماتحت عدلیہ سے تعلق رکھنے والے سول جج صاحبان کے سروس اسٹرکچر کا ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے ایک سول جج ترقی کرتے ہوئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مناصب تک پہنچے۔وکلا اور عدلیہ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔لیکن افتخار محمد چوہدری کے بحالی کے بعد عدلیہ اور وکلا کے مابین احترام کا رشتہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
اب مختلف شہروں سے یہ اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ کبھی جج صاحبان پر تشدد کیا جارہا ہے اور بعض اوقات تو جج صاحبان کو کمرے میں بند کرکے تالا لگا کر من چاہے فیصلے تحریر کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔
اس روش کو ختم کرنا بھی نئے چیف جسٹس صاحب کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔نامزد چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال جو چیف جسٹس گلزاراحمد کی جگہ لے رہے ہیں وہ خود وکلا تحریک کے دوران اس کا حصہ رہے لیکن اب ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے نہ صرف عدلیہ کی طاقت بحال ہو، اس کی عزت محفوظ ہو اور وکلا صاحبان کو بھی نظم و ضبط کا پابند بنانے کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں۔
اس سلسلے میں بینچ اور بار کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا،سینئر وکلا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔