فرحی نعیم
سماجی روابط کی درجنوں ویب سائٹس نے جہاں معاشرے کو اخلاقی زوال سے دوچار کیا وہیں باہم ربط و تعلق رشتے ناطوں میں بھی واضح کمی پیدا کر دی ۔بلکہ اس کے منفی اثرات نےخانگی زندگیوں میں دراڑیں پیدا کر دیں، مغرب کے اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کےروبہ زوال معاشرے کی ایک بہت اہم وجہ فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک اور ایسی ہی دوسری ویب سائٹس ہیں، جن کا حد درجہ استعمال ،آپس کے رشتوں میں فاصلے پیدا کرنے کا باعث بناچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی 20فی صد طلاقوں کا سبب فیس بک ہے۔
عالمی سطح پر اسے گھریلو زندگی کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔یہ بات تو بہرحال مغربی ممالک کی ہے، لیکن اگر ہم اپنے مشرقی معاشرے کی بات کریں تو یہاں بھی صورت حال افسوسناک حد تک گر چکی ہے، ہر سال ٹوٹتے بکھرتے گھروں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلامی و مشرقی اقدار آہستہ آہستہ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے حائل ہو کر گھر والوں کے درمیان اتنے فاصلے بڑھا دیئے کہ جو وقت خاندان کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے تھے وہ اب اس کے ساتھ مگن ہو کر دور دراز بیٹھے ان دوستوں کے ساتھ گزارا جاتا ہے جن کا شاید اصلی نام پتہ بھی معلوم نہ ہو۔
قربتیں، رقابت میں تبدیل ہو تی جارہی ہیں، ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی اہل خانہ ذہنی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عادی ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کو فروغ مل رہا ہے جو تضاد سے بھرپور ہیں اور یہی گھریلو ناچاقی کی ابتداء ہے۔ مغربی معاشروں میں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور یہی چیز ہمارے سماج میں بھی تیزی سے سرایت کر رہی ہے لیکن بجائے اس کے کہ ہم اس سے خبردار ہوں اور اس کے آگے بند باندھیں۔ ہمارے رویئے غفلت اور پہلو تہی پر مبنی ہوتے جارہےہیں۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں نہ تو کوئی حدود وقیود ہیں اور نہ قاعدے قوانین، اس کی وجہ سے ہر ایک اپنے فرائض ،تربیت و نصیحت سے غفلت برت رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو صلہ رحمی جن میں عزیز، رشتہ دار شامل ہیں ،ان سے بھی ملاقات کی روایت ختم کر دی۔ آج کی نسل رشتہ داروں کو تو نہیں جانتی ، عید تہوار پر اورخاندانی تقریبات میں بھی جانا انہیں بوجھ لگتا ہے۔ یا اگر وہ چلے بھی جائیں تو موبائل کی دنیا میں ہی گم رہتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے آسانی کے ساتھ پیغام، رسانی و برقی وکارٹونک پیغام نے اب صرف مختصراً سلام دعا تک محدود کر دیا ہے۔
خوشی ،غم ،مایوسی ،حیرت ، خوف ،غصہ ،ہر طرح کی کیفیت کا اظہار ان ’’ایموجی‘‘ کے ذریعے کیاجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیے تو سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرکے اس سے استفادہ بھی کرسکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو جو احادیث اور سنہرے اقوال بھیجتے ہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے تو معاشرہ کافی حدتک سدھر سکتا ہے۔
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ سدھرنے کے بجائے بگاڑ کی طرف زیادہ گامزن ہے ،کیوں کہ تجاویز دینا بہ نسبت عمل کے بہت آسان ہے۔ لہٰذا اپنے وقت کا کم سے کم استعمال اس پر کیجئے۔ آس پاس کے لوگوں سے تعلقات بحال کریں۔ غیروں کے مسائل میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنے گھر والوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھیں، تاکہ گھریلو روابط مضبوط اور پائیدار ہوں۔