• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی لیڈروں پر پاکستانی سیاست کے اثرات

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو ان دنوں اس بحرانی صورتحال کا سامنا ہے جس سے چند ماہ قبل ان کے ہیلتھ سیکرٹری (وزیر صحت) میٹ ہنکاک گزر چکے ہیں، وہ اپنے اوپر آنے والے مصیبت اور تنقید کا زیادہ دن تک سامنا نہ کرسکے اور اپنی وزارت قربان کردی۔ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر صرف میٹ ہنکاک ہی نہیں بلکہ برطانیہ کے کئی عہدیدار، میئرز وغیرہ مستعفیٰ ہو چکے ہیں مگر بورس جانسن ہیں کہ اس ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ لاک ڈائون کے دوران کورونا کے قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی، چند ہفتے قبل یہ انکشاف ہوا کہ لاک ڈائون کے دوران وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ نمبر 10 ڈائوننگ اسٹریٹ میں ہونے والی ’’مدہوش کن‘‘ پارٹی میں بورس جانسن خود بھی شریک تھے۔ اس ’’الزام‘‘ پر بورس جانسن نے واضح طور پر تردید جاری کی کہ وہ وہاں موجود نہیں تھے، بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید شواہد ملنے کے بعد وزیراعظم نے اپنی حکومت کو بچانے کے لئے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ اس پارٹی میں گئے تھے مگر انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ یہ کوئی سرکاری ایونٹ ہے، ان کی یہ بات بھی ان کے خلاف چارج شیٹ بنانے میں معاون ثابت ہوئی اور اب ڈائوننگ اسٹریٹ میں وزیراعظم کے سابق مشیر اور قریبی ساتھی ڈومینک کمنگز نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے کہ بورس جانسن نہ صرف اس نجی کرسمس پارٹی میں موجود تھے بلکہ انہوں نے کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خوب ’’انجوائے‘‘ بھی کیا، اب ان پر اس بات کے لئے دبائو مزید بڑھ گیا ہے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائیں، برطانیہ اور دوسرے مہذب ممالک میں یہی روایت چلی آرہی ہے لیکن وزیراعظم بضد ہیں کہ انہوں نے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے نہ وہ مستعفیٰ ہوں گے بلکہ انہوں نے 60 سے زیادہ روٹھے ہوئے ٹوری ارکان پارلیمنٹ کو منانے کے لئے برطانیہ میں کورونا کی باقی ماندہ پابندیاں بھی ہٹانے کا اعلان کر دیا ہے، ان ارکان پارلیمنٹ نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں کورونا کی پابندیوں کے حوالے سے بل پر بورس جانسن کی حکومت کے خلاف ووٹ دیا تھا، اب بورس جانسن چاہتے ہیں کہ یہ ارکان ان کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہ بنیں، ان کی قیادت کو پہلے ہی بعض ارکان پارلیمنٹ نے چیلنج کر رکھا ہے اگر ان کی مخالفت میں خطوط لکھنے والے ارکان کی تعداد 54 ہوگئی تو ان کی قیادت کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تاہم فی الوقت وہ سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے، شاید انہوں نے برصغیر پاکستان اور انڈیا کی سیاسی قیادت سے یہ بات سیکھ لی ہے کہ سب چلتا ہے، حالات جتنے بھی سنگین ہو جائیں مستعفی نہیں ہونا، انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر، مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا ہے مگر وہ ہیں کہ ٹَس سے مَس نہیں ہو رہے۔ یہی حال پاکستان کے لیڈروں کا ہے، ملک کی اقتصادی صورتحال ابتر ہو چکی ہے، امن و امان کا فقدان ہے، حکومتی لیڈروں پر بدعنوانیوں کے سنگین الزامات ہیں، پی آئی اے کا طیارہ اگر گرتا ہے تو وزیر کہتا ہے کہ وہ تو پائلٹ نہیں تھا، اسی طرح دوسرے بھی ذمہ داری نہیں لیتے نہ مستعفیٰ ہوتے ہیں، وزیراعظم بورس جانسن بھی یقیناً اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ’’الزامات‘‘ کوئی اتنے بھاری بھی نہیں کہ اٹھا نہ سکوں، سو روایات یہاں بھی تبدیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
یورپ سے سے مزید